قرآن حکیم میں فریضہ شہادت علی الناس کو اس امت کا فرضِ منصبی ہی نہیں‘اس کی غرضِ تاسیس قرار دیا گیاہے: 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ 
(البقرہ: ۱۴۳
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا تاکہ تم گواہ ہو جاؤ لوگوں پر اور رسولؐ ‘ تم پر گواہ ہو جائے.‘‘
اور ظاہر ہے کہ اُمت افراد سے مل کر بنتی ہے : ؎

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اگر آپ بھی یہ کہہ کر فارغ ہو جائیں کہ یہ تو اُمت کا کام ہے ‘میرا تو نہیں اور اسی طرح میں بھی یہ کہہ کر فارغ ہو جاؤں تو پھر یہ کام کرے گا کون؟ ہماری علاقائی زبان کی ایک کہاوت تھی ’’میں بھی رانی تو بھی رانی‘کون بھرے گا پانی‘‘ .اُمت کا ہر فرد اپنی جگہ یہ کہہ کر بَری ہوجائے کہ یہ فرض اُمت کا ہے میرا تو نہیں ‘تو یہ فرض کیسے ادا ہو گا؟ دین میں فرضِ کفایہ کا تصور یہی ہے کہ ایک کام کے لیے جتنی ضرورت ہے وہ اگر چند افراد نے پوری کر دی تو سب کی طرف سے وہ فرض ادا ہو گیا‘لیکن ضرورت پوری کرنے کے لیے جتنے افراد چاہئیں تھے‘وہ اگر نہیں نکلے تو پھر پوری آبادی گنہگار اور مجرم ٹھہرے گی. آج امت پوری نوع انسانی پر دعوت و تبلیغ کے ذریعے اور اپنے قولی و عملی مظاہرے کے ذریعے اللہ کی طرف سے حجت قائم نہیں کر رہی ہے تو اُمت کا ایک ایک فرد مجرم ہے. لہٰذا یہ فریضہ ایک ایک فرد پر فرضِ عین کی طرح عائد ہوتا ہے کہ اپنی توانائیاں‘اپنی قوتیں اور اپنی صلاحیتیں اس کام کے لیے لگائے کہ اللہ کے پیغام کو عام کرنا ہے‘اسے چاردانگِ عالم میں پھیلانا ہے‘اسے بنی نوع انسان تک پہنچانا ہے.