جب برعظیم پاک و ہند پر انگریز کا تسلط ہو گیا تو معاملہ برعکس ہو گیا. اب انگریز کے نظام نے ’’دین‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی اور اسلام ’’مذہب‘‘ بن کر رہ گیا. اب صورتِ حال یہ تھی کہ دین انگریز کا ہو گا. تم نماز پڑھو‘ روزہ رکھو‘ حج کرو‘ داڑھیاں رکھو‘ جو چاہو کرو. ہم یہ نہیں کہتے کہ تم ضرور شراب پیو یا زنا کرو. ہاں ہم زنا کے لائسنس دیں گے‘ شراب کے پرمٹ جاری کریں گے‘ تم کون ہوتے ہو روکنے والے؟ اب یہاں فوج داری قانون ہمارا ہو گا‘ دیوانی قانون ہمارا ہو گا!! گویا انگریز کے دین کے تحت تابع ہو کر ہندو ہندو رہے‘ مسلمان مسلمان رہے. ہندو مندر میں جائے‘ مسلمان مسجد میں جائے‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں. تم چاہے ساری رات نماز میں کھڑے رہا کرو اور روزے تیس دن کی بجائے ۳۶۵ دن کے رکھا کرو‘ ہمیں کیا اعتراض ہے! تو یہ تھا وہ reversal کہ اب اسلام دین نہیں رہا بلکہ مذہب بن گیا اور سورۂ یوسف میں وارد ہونے والے الفاظ ’’دین المَلِک‘‘ کے مصداق ’’دین‘‘ کی حیثیت تخت ِانگلستان پر بیٹھنے والے ملکِ معظم یا ملکہ معظمہ کے نظام نے حاصل کر لی. چنانچہ خواہ وہ ملکہ ہے یا ملک ہے‘دین اس کا ہے‘نظام اس کا ہے‘دیوانی اور فوجداری قانون اسی کا چلے گا‘ taxation کا نظام اس کا ہو گا‘خراج وہ وصول کرے گا. تم اپنی جگہ عبادات کرتے رہو‘تمہیں اس کی اجازت ہے.