یہ شہادت گہہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

بہرحال تیسرا اور سب سے کٹھن دینی فریضہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے. ویسے تو آسان کوئی بھی نہیں تھا. میں نے عرض کیا تھا کہ جنت خریدنے نکلے ہیں‘جسم و جان کی ساری توانائیاں نچوڑ دیں گے تب جنت ملے گی.جنت کوئی اتنی گھٹیا‘ حقیر اور بے وقعت شے نہیں ہے کہ یونہی مل جائے. چنانچہ پہلا قدم بھی آسان نہیں تھا. بقول اقبال : ؎

چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا اِلٰہ را

مسلمان بنناآسان کام نہیں ہے‘اس کے لیے نفس کے خلاف لڑائی لڑنی پڑے گی‘ماحول کے خلافت مدافعت کرنا پڑے گی‘شیطان اور اس کی ذریتِ معنوی و صلبی کے خلاف جنگ آزما ہونا پڑے گا‘تب کہیں اللہ کی اطاعت کر سکیں گے اور اس کے رسول کا اتباع کر سکیں گے. دوسرے فریضے کی ادائیگی میں اپنے شاندار کیریئر چھوڑنے پڑیں گے. ظاہر ہے کہ وہی وقت اور توانائی خواہ آپ پیسے کمانے میں لگا دیں‘اس سے اپنے پروفیشن میں مہارتِ تامہ بہم پہنچائیں اور اس سے جائیدادیں بنائیں‘اور وہی وقت اور توانائی اگر آپ اِدھر لگائیں گے تو اپنی دنیا سکیڑنی پڑے گی. ع ’’میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا‘‘ کے مصداق انسان کو اپنے سامنے دیکھنا ہوتا ہے کہ دوسروں کی دنیا پھیل رہی ہے اور میری سکڑ رہی ہے. مکہ مکرمہ میں لوگوں کے سرمائے بڑھ رہے تھے‘لیکن ابوبکرh کے سکڑ رہے تھے. مکہ کا اتنا بڑاتاجر‘ملک التجار‘ہجرت کے وقت تک بارہ برسوں میں وہ اللہ کا بندہ اللہ کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ لگا چکا تھا اور جو تھوڑی سی پونجی بچ گئی تھی وہ بھی سفرِ ہجرت میں ساتھ لے کر گیا‘اپنی دونوں بچیوں (حضرت عائشہ اور حضرت اسمائi)‘بیوی اور بوڑھے نابینا باپ کے لیے ایک پیسہ نہیں چھوڑا. ابو قحافہ اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے‘مشرک تھے‘فتح مکہ کے بعد ایمان لائے. وہ بچیوں سے کہنے لگے: ’’کیا ابوبکر چلا گیا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی دادا جان!‘‘ پوچھا: ’’کچھ چھوڑ کر بھی گیا ہے؟‘‘ انہوں نے بڑی حکمت برتی‘کچھ کنکرلے کر ایک رومال میں ڈالے اور اس پر بوڑھے دادا کا ہاتھ پھیرا کہ دادا جان یہ دیکھئے‘یہ مال چھوڑ کر گئے ہیں. تو یہ دنیا سکڑتی ہے تب کام ہوتا ہے. ابھی تو معروف معنوں میں جہاد شروع ہی نہیں ہوا تھا‘ابھی اذنِ قتال نہیں آیا تھا‘ابھی تو دعوت ہی چل رہی تھی. لیکن اس دعوت کے مرحلے میں بھی انسان کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا وقت اور صلاحیتیں کاروبار میں لگائے یا دعوت میں لگائے. انسان کے پاس وقت‘توانائیاں اور قوتِ کار قسم کی چیزیں محدود ہی ہوتی ہیں‘اگر ان کو انسان دعوت و تبلیغ میں لگا دے تو اپنا دھندا تو سمٹے گا. لیکن اس کے باوجود میں کہہ رہا ہوں کہ یہ بڑی مشکل اور کٹھن منزل ہے.

اور سب سے کٹھن اور سب سے اونچی منزل ہے دین کو قائم کرنا. وہ اس لیے کہ دین کو قائم کرنے کا مطلب نظام کی تبدیلی ہے‘یعنی جو نظام بالفعل قائم ہے اسے ہٹایئے 
اور دین کے نظام کو لایئے. جو نظام کہیں قائم ہوتا ہے اس کے ساتھ کچھ طبقات کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں. جاگیردارانہ نظام ہے تو اس کے ساتھ جاگیرداروں کے مفادات ہیں. کیا وہ پسند کریں گے کہ ان کا نظام بدل دیا جائے؟ سعودی عرب میں بادشاہی نظام قائم ہے. کیا وہ پسند کریں گے کہ ان کا یہ شاہی نظام ختم کر دیا جائے؟ وہ تو اس کا نام لینے والوں کی تکہ بوٹی کر دیں گے. کیا ایران کا بادشاہ آسانی سے چلا گیا تھا؟ اس نے کتنے انسانوں کی تکہ بوٹی کی تھی‘کتنے لوگ تھے کہ جن کو ساوک کے بھیڑیوں نے maim کیا‘جن کے بازو کاٹ دیے‘جن کے جسم مفلوج کر دیے. اور پھر کتنے ہزاروں تھے کہ جن کے لاشے سڑکوں پر تڑپے ہیں‘نہ صرف مَردوں کے بلکہ عورتوں کے بھی. عورتوں کا جلوس نکلا تھا شیر خوار بچوں کو گود میں لے کر‘جس پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی. اس کے بعد بادشاہ وہاں سے بھاگا ہے کہ اگر یہاں کی عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں لے کر فائرنگ سکواڈ کے سامنے آ سکتی ہیں تو پھر کل میرا حشر کیا ہو گا. ایسا نہیں تھا کہ اس کا اسلحہ ختم ہو گیاتھا. اسلحہ تو اس کے پاس بے شمار تھا‘پورے ایشیا میں اتنا بڑا اسلحہ خانہ کسی اور ملک کے پاس نہیں تھا‘لیکن وہ عوام کی طاقت کے آگے کھڑا نہ رہ سکا. عوام اگر مرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں تو پھر بڑی سے بڑی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی. لیکن بہرحال نظام کا بدلنا آسان نہیں. اور یہ ہے ’’اقامتِ دین‘‘ جو فرائض دینی کی تیسری اور بلند ترین منزل ہے. سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں مسلمانوں کو اسی فریضہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے: 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ 

’’(اے مسلمانو!) اس نے تمہارے لیے بھی دین کے بارے میں وہی شے معین کی ہے جس کی وصیت کی تھی اس نے نوحؑ کو اور جووحی کی ہے ہم نے (اے محمد ) آپ کی جانب اور جس کی وصیت کی تھی ابراہیم ؑ کو اور موسیٰ ؑ کو اور عیسیٰ ؑ کو کہ دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ!‘‘ 
اسی تسلسل میں آگے چل کر آیت ۱۹ میں فرمایا گیا: 

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿٪۱۹﴾ 
’’اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے‘وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے‘اور وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے.‘‘

آدمی کو اقامت ِدین کی جدوجہد سے روکنے والی سب سے بڑی چیز اس کے معاشی معاملات و مسائل ہوتے ہیں. ان کے بارے میں اطمینان دلا دیا گیا کہ اللہ بڑا باریک بین ہے‘ وہ اپنے بندوں کی تمام ضرورتوں سے واقف ہے‘وہ چڑیوں کو کھلا رہا ہے پلا رہا ہے تو کیا تمہیں نہیں کھلائے گا؟ لیکن تمہارا اس پر توکل نہیں ہے‘تم اللہ پر بھروسہ نہیں رکھتے‘تمہارا ایمان و یقین کمزور ہے.