بنا بریں وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ایک زبردست علمی تحریک ایسی اٹھے جو سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات یعنی معاشرے کے ذہین ترین عناصر کے فکر و نظر میں انقلاب برپا کردے... اور انہین مادیت و الحاد کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و یقین کی روشنی میں لے آئے اور خدا پرستی و خود شناسی کی دولت سے مالا مال کردے. خالص علمی سطح پر اسلامی اعتقادات کے مدلل اثبات اور الحاد و مادہ پرستی کے پرزور ابطال کے بغیر اس مہم کا سر ہونا محال ہے. ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ چونکہ موجودہ دور میں فاصلے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں اور پوری نوع انسانی ایک کنبے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لہٰذا علمی سطح کا تعین کسی ایک ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اعلیٰ ترین معیار کے مطابق کرنا ہوگا... اور اگرچہ یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ کام انتہائی کٹھن اور سخت محنت طلب ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کے بغیر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھنا جنت الحمقاء میں رہنے کے مترادف ہے.

پیش نظر علمی تحریک کے لیے سب سے پہلے ایسے ذہین اور با صلاحیت نوجوانوں کو تلاش کرنا ہوگا جن میں علم کی ایک شدید پیاس فطری طور پر موجود ہو، جن کے قلوب مضطرب اور روحیں بے چین ہوں، جن کو خود اپنے اندر یہ احساس موجود نظر آئے کہ اصل حقیقت جواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہے اور جن میں حقیقت کی تلاش و دریافت کا داعیہ اتنا شدید ہوجائے کہ وہ اس کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں اور آرام و آسائش کے حصول اور خوشنما مستقبل 
(CAREERS) کی تعمیر سے یکسر بے نیاز ہوجائیں.

ایسے نوجوانوں کو اوّلاً انسان کی آج تک کی سوچ بچار کا مکمل جائزہ لینا ہوگا، اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ انسانی فکر کی پوری تاریخ کا گہرا مطالعہ کریں. اس اعتبار سے منطق، ماوراء الطبیعات، نفسیات، اخلاقیات اور روحانیت ان کے مطالعہ اور غور و فکر کا اصل میدان ہوں گے. (اگرچہ ضمنی طور پر عمرانیات اور طبعیات کی ضروری معلومات کی تحصیل بھی ناگزیر ہوگی) فکرِ انسانی کے اس گہرے اور تحقیقی مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ 
وحی آسمانی اور اس کے آخری جامع اور مکمل ایڈیشن یعنی قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ حقیقت کی تلاش اور حقیقت نفس الامری کی دریافت کے نقطۂ نگاہ سے کریں. 

پھر اگر ایسا ہو کہ قرآن کی روشنی ان پر واضح ہوجائے، اس کا پیغام انہیں اپنی فطرت کی آواز معلوم ہو، اس کے نور سے ان کے قلوب و اذہان منور ہوجائیں، آفاق و انفس کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں تمام بنیادی سوالوں کا تشفی بخش جواب انہیں مل جائے اور انبساطِ معرفت سے ان کے نفوس میں امن اور سکون و اطمینان کی کیفیت پیدا ہوجائے، تو اسی کا نام ایمان ہے.!

پھر یہی ہوں گے جنہیں "رسوخ فی العلم" حاصل ہوگا. جن کا علم ذہنی و اخلاقی آوارگی کے بجائے تقوی و خشیتِ الہی پر منتج ہوگا جن کی شخصیتیں اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ (۱کی مجسم تفسیر اور؏ "قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن" کی عملی تصویر ہوں گے. اس لیے کہ قرآن کا "مغز" در اصل یہی "علمِ حقیقت" ہے جس کا دوسرا نام ایمان ہے. قانون و شریعت کی اہمیت بجائے خود اگرچہ نہایت عظیم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ان کی حیثیت واقعۃً استخوان کی ہے . (۲اور حقیقت یہ ہے کہ اس کیفیتِ ایمانی کی تحصیل کے بغیر قرآن کے بیان کردہ قانون و شریعت پر غور و فکر بالکل بے کار ہے. یہی رمز ہے جو حضرت ابن عباس کے اس قول میں بیان ہوا کہ "تَعَلَّمْنَا الْاِیْمَانَ ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْاٰنَ". (۳

مغرب کے فلسفہ و فکر کے مؤثر ابطال اور اس کی تہذیب و تمدن کے واقعی استیصال کا کٹھن کام صرف ان لوگوں کے بس کا ہے جو ’علم حقیقت‘ کے ان چشموں سے اچھی طرح سیراب 
(۱) آیت قرآنی: اللہ کی خشیت اس کے اہل علم بندوں ہی کے دلوں میں گھر کرتی ہے!

(۲) ما زقرآن مغزہا برداشیتم. استخواں پیش سگاں انداختیم (رومی)

(۳) ترجمہ: ہم نے پہلہے ایمان سیکھا اور پھر قرآن. ہوں جو قرآن حکیم کی آیاتِ بینات کی صورت میں رواں ہیں، ان ہی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ آج کے فلاسفہ کے لیے ایک نئی (۱"تہافت" تصنیف کرسکیں اور آج کے منطقیین پر از سرِ نو (۲رد کر سکیں، اور فی الجملہ الحاد و مادہ پرستی کے اس سیلاب کا رخ پھیر دیں جو تقریباً دو صدیوں سے ذہنِ انسانی کو بہائے لیے چلا جا رہا ہے. 

اس تخریب کے ساتھ انہیں جدید علم الکلام کی تاسیس کا ’مثبت‘ کام بھی کرنا ہوگا تاکہ ریاضی، طبعیات، فلکیات، حیاتیات اور نفسیات کے میدان میں جن حقائق کی دریافت آج تک ہوئی ہے 
(۳اور جو اسی حقیقتِ کلی کی ادنی جزئیات ہیں جن کا مظہر اتم ایمان ہے، انہیں اسلامی عقائد کے نظام میں اپنے اپنے مقام پر صحیح طور سے فٹ کیا جا سکے. آج سے پینتیس چالیس سال قبل علامہ اقبال مرحوم نے "الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید" کے سلسلے میں جو کام کیا تھا اس کا وہ حصہ تو اگرچہ بہت محل نظر ہے جو شریعت و قانون اور اجماع و اجتہاد سے بحث کرتا ہے (اور جو فی الواقع "الہیات" سے براہ راست متعلق بھی نہیں) تاہم اپنے اصل موضوع کے اعتبار سے علامہ مرحوم کی یہ کوشش بڑی فکر انگیز تھی اور جیسا کہ خود علامہ نے کتاب دیباچے میں فرمایا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ جیسے جیسے علم آگے بڑھے اور فکر کی نئی راہیں کھلیں، زیر نظر کتاب میں جو خیالات بیان ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بلکہ ان سے صحیح تر خیالات ظاہر ہوں. ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انسانی فکر کے ارتقاء کا ایک آزاد تنقیدی نقطۂ نگاہ سے مسلسل جائزہ لیتے رہیں..." اگر انہی خطوط پر کام جاری رہتا اور کچھ باہمت لوگ اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے تو ایک بہت وقیع و قابل قدر کام ہوجاتا لیکن افسوس کہ خود علامہ مرحوم کے حلقہ اثر میں سے بھی کسی نے اس میدان کو اپنی جولانی طبع کے لیے منتخب نہیں کیا. (۱) تہافت الفلاسفہ. تالیف امام غزالی. 

(۲) الرد علی المنطقیین. تالیف امام ابن تیمیہ.
 
(۳) واضح رہے کہ اس ضمن میں "حقائق" اور "نظریات" کے مابین فرق و امتیاز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. بہرحال جب تک اس میدان میں واقعی قدر و قیمت رکھنے والا کام ایک قابلِ ذکر حد تک نہیں ہوجاتا یہ امید کہ معاشرے کے ذہین طبقات کو مذہب کی طرف راغب کیا جا سکے گا محض سراب کا درجہ رکھتی ہے..!

"الہیات اسلامیہ کی تشکیلِ جدید" کے بعد دوسرا اہم کام یہ ہے کہ حیاتِ دنیوی کے مختلف پہلوؤں یعنی سیاست و قانون اور معاشرت و معیشت کے باب میں اسلام کی ہدایت و رہنمائی کو مدلل و مفصل واضح کیا جائے. اس ضمن میں جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے پچھلے پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں خاصا کام مصر اور برصغیر ہندوپاک میں ہوا ہے. خصوصاً جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون نے "اسلامی نظامِ حیات" اور "عدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام" کو تصنیف و تالیف کا مرکزی موضوع بنایا ہے تاہم اس سارے کام کو بس ایک اچھی ابتداء قرار دیا جا سکتا ہے اور ادھر کچھ عرصہ سے مکھی پر مکھی مار دینے اور تقریباً ایک سی سطح اور ایک سے معیار کی تالیفات مختلف ناموں سے شائع کردینے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس نے بہت حد تک اس اساسی کام کی اہمیت بھی ختم کردی ہے جو بجائے خود خاصا قابل قدر تھا. اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ نیم خواندہ یا بقول مولانا اصلاحی "کم پڑھے کم لکھے زیادہ" لوگوں کی تصنیفات و تالیفات کی ایک خاص تکنیک کے ذریعے ایک مخصوص حلقے میں فروخت سے بعض لوگوں کا معاشی مسئلہ تو ضرور حل ہوسکتا ہے، دین کی کوئی مثبت اور پائیدار خدمت ممکن نہیں ہے، آج کی دنیا میں خصوصاً اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ مسلمہ علمی قابلیت رکھنے والے لوگوں کے سوا کسی مؤلف و مصنف کی جانب التفات کرسکیں. لہذا لازم ہے کہ جو کام بھی کیا جائے وہ معیاری ہو اور کمیت سے زیادہ کیفیت پیش نظر رہے. 

اس کام کے لیے بھی ظاہر ہے کہ ایک طرف موجودہ دنیا کے مسائل و معاملات کا صحیح فہم اور عمرانیات کے مختلف میدانوں میں جدید رجحانات کا براہ راست علم ضروری ہے، 
اور دوسری طرف قرآن و سنت میں گہری ممارست لازمی ہے اور جب تک یہ صورت نہ ہو کہ ان دونوں اطراف کا مطالعہ یکساں دقت نظر کے ساتھ کیا جائے معیاری نتائج کی توقع عبث ہے.