متذکرہ بالا علمی تحریک کے اجراء کے لیے فوری طور پر دو چیزیں لازمی ہیں. 

ایک یہ عمومی دعوت و تبلیغ کا ایک ایسا ادارہ قائم ہو جو ایک طرف تو عوام کو تجدید ایمان اور اصلاحِ اعمال کی دعوت دے اور جو لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں ان کی ذہنی و فکری اور اخلاقی و عملی تربیت کا بندوبست کرے 
(۱اور ساتھ ہی اس علمی کام کی اہمیت ان لوگوں پر واضح کرے جو خلوص اور درد مندی کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے آرزو مند ہیں اور دوسری طرف ایسے ذہین نوجوان تلاش کرے جو پیش نظر علمی کام کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں. آج کے دور میں، جبکہ مادیت اور دنیا پرستی کا قلوب و اذہان پر مکمل تسلط ہے اور کچھ تو فی الواقع طلب معاش کا مسئلہ اتنا کٹھن ہوگیا ہے کہ اکثر لوگوں کو اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں اسی کے حل پر مرکوز کردینی پڑتی ہیں، پھر معاشرے کا عام رجحان یہ ہوگیا ہے کہ جو ذرا اس سطح سے بلند ہوتا ہے کہ اس پر معیارِ زندگی کو بلند تر کرنے کی دھن سوار ہوجاتی ہے. اس قسم کے نوجوانوں کا ملنا بظاہر محال نظر آتا ہے . لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا سعید روحوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی، اور اگر کچھ مخلص و صاحب عزیمت لوگ ذہنی یکسوئی کے ساتھ اس کام کا بیڑہ اٹھا لیں تو انشاء اللہ اسی معاشرے میں بہت سے ذہین اور اعلی صلاحیتوں کے مالک نوجوان ایسے مل جائیں گے جو نبی اکرم  کے اس قول مبارک کو کہ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ (۲اپنا لائحہ عمل بنا کر علم قرآن کی تحصیل و اشاعت کے لیے زندگی وقف کردیں. یہ بھی واضح رہے کہ اصل ضرورت صرف اس کی ہوتی ہے کہ کسی جذبہ و خیال کے تحت انسان (۱) الحمد للہ کہ ان مقاصد کے لیے ۷۵ء میں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آگیا.

(۲) حدیث نبوی. تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہیں. میں داخلی طور پر ایک داعیہ بیدار ہوجائے، پھر یہ داعیہ کام کی راہیں خود پیدا کرلیتا ہے اور تمام موانع و مشکلات سے خود نبٹ لیتا ہے. لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ اس خیال کو عام اور اس کی ضرورت کے احساس کو اجاگر کیا جائے پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس اعلیٰ و ارفع نصب العین کے لیے کام کرنے والے دستیاب نہ ہوسکیں. 

دوسرے یہ کہ ایک قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے. جو ایک طرف علوم قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت کا بندوبست کرے تاکہ قرآن کا نور عام ہو اور اس کی عظمت لوگوں پر آشکارا ہو اور دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرے جو بیک وقت علومِ جدید سے بھی بہرہ ور ہوں اور قرآن کے علم و حکمت سے بھی براہ راست آگاہ ہوں تاکہ متذکرہ بالا علمی کاموں کے لیے راہ ہموار ہوسکے.

عموم قرآنی کی نشر و اشاعت کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلے گا کہ عام لوگوں کی توجہات قرآن حکیم کی طرف مرکوز ہوں گی، ذہنوں پر اس کی عظمت کا نقش قائم ہوگا، دلوں میں اس کی محبت جاگزیں ہوگی اور اس کی جانب ایک عام التفات پیدا ہوگا. نتیجۃًبہت سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان بھی اس سے ’متعارف‘ ہوں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سے ایک اچھی بھلی تعداد ایسے نوجوانوں کی نہ نکل آئے جو اس کی قدروقیمت سے اس درجہ آگاہ ہوجائیں کہ پوری زندگی کو اس کے علم و حکمت کی تحصیل اور نشر و اشاعت کے لیے وقف کردیں. ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اس اکیڈمی کا اصل کام ہوگا، اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان کو پختہ بنیادوں پر عربی کی تعلیم دی جائے یہاں تک کہ ان میں زبان کا گہرا فہم اور اس کے ادب کا ستھرا ذوق پیدا ہوجائے. پھر انہیں پورا قرآن حکیم سبقاً سبقاً پڑھایا جائے، اور ساتھ ہی حدیثِ نبوی  فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم دی جائے. پھر ان میں سے جو لوگ فلسفہ و الہیات کا ذوق رکھنے والے ہوں گے، ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ قرآن حکیم کی روشنی میں جدید فلسفیانہ رجحانات پر مدلل تنقید کریں اور جدید علم الکلام کی بنیاد رکھیں. اور جو عمرانیات کے مختلف 
شعبوں کا ذوق رکھنے والے ہوں گے ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام کی رہنمائی و ہدایت کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کرسکیں.