تحریک تعلم و تعلیمِ قرآن کے روح پرور منظر، اور حیرت انگیز پیش رفت کا 
اجمالی خاکہ و اما بنعمۃ ربک فحدث 

ٰٰ* تحریک تعلم و تعلیم قرآن کے دور اول کے اہم سنگ ہائے میل
* مطالعہ قرآنِ حکیم کا منتخب نصاب.

لاہور کے حلقہ ہائے مطالعہ قرآن، اور اتوار کی صبح کا مرکزی درس
دار الاشاعت الاسلامیہ اور سلسلۂ مطبوعات قرآن اکیڈمی

مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام. اور 
تحریک تعلم و تعلیمِ قرآن کے دور ثانی کے اہم نشاناتِ راہ:


* دعوت قرآنی کی اندرون ملک توسیع اور کراچی کا ماہانہ سفر
* لاہور میں دعوت کی توسیع، اور نوجوان میدان عمل میں
* تنظیم اسلامی کا قیام اور انجمن اور تنظیم کا باہمی ربط

مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی اٹھارہ سالہ کارگزاری کا اجمالی خاکہ، اعداد و شمار کے حوالے سے.


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿﴾ 
(تحریر فروری ۱۹۸۹ء)

ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے کہ اس نے کمالِ فضل و کرم سے اولاً اپنے اس بندۂ حقیر کو اوائل عمر ہی سے اپنے کلام پاک سے ذہنی مناسبت اور قلبی انس عطا فرما دیا. اور ثانیاً تعلیم و تعلّمِ قرآن کے ضمن میں اس کی حقیر مساعی کو اس درجہ بار آور اور مشکور و مقبول بنا دیا کہ اس کے نام کو دنیا بھر میں کم از کم اردو بولنے والوں کی حد تک دعوت رجوع الی القرآن کے جلی عنوان کی حیثیت حاصل ہوگئی.

یہ دعوتِ رجوع الی القرآن اور تحریکِ تعلیم و تعلم قرآن گزشتہ تئیس چوبیس سالوں کے دوران جن جن مراحل سے گزری، اور اس اثنا میں اس نے جو نشاناتِ راہ نصب کیے ان کا متفرق تذکرہ وقتاً فوقتاً حکمتِ قرآن اور میثاق میں ہوتا رہا ہے، تاہم اس موقع پر جب کہ یہ دعوت و تحریک ربع صدی مکمل کیا چاہتی ہے، اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور بھی اپنا سترھواں سالانہ اجلاس منعقد کر رہی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ایک مختصر مگر جامع روداد بھی مرتب کردی جائے، اور اس کے اب تک کے ثمرات و نتائج کا ایک سرسری جائز بھی لے لیا جائے تاکہ ایک جانب حکمِ خداوندی: وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪﴾ کی تعمیل ہوجائے، اور دوسری جانب نہ صرف یہ کہ موجودہ رفقاء و احباب اور اعوان و انصار کی ہمت افزائی ہو، بلکہ اس راہ کے آئندہ مسافروں کو بھی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا سامان ملے.

لاہور سے گیارہ سال باہر (۱رہنے کے بعد جب راقم اواخر ۱۹۶۵ء میں دوبارہ واردِ لاہور ہوا تو اس کے پیشِ نظر اصل مقصد تجدید و احیائے دین کی اسی اصولی انقلابی (۱) ہمارا خاندان نومبر ۱۹۴۷ء میں حصار (مشرقی پنجاب، حال ہریانہ) سے آگ اور خون کے دریا عبور کرکے واردِ لاہور ہوا تھا. بعد میں والد صاحب مرحوم تو بسلسلۂ ملازمت کچھ عرصہ لاہور، اور پھر قصور اور پتوکی مقیم رہ کر بالآخر منٹگمری (حال ساہیوال) میں اقامت گزیں ہوگئے، لیکن میں بسلسلۂ تعلیم سات سال لاہور ہی میں مقیم رہا. (دو سال گورنمنٹ کالج لاہور برائے ایف ایس سی، اور پانچ سال کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج برائے ایم بی بی ایس) اور اس عرصے کے دوران میری وابستگی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہی. نومبر ۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد میں بھی ساہیوال منتقل ہوگیا. چنانچہ وہیں جماعتِ اسلامی میں شمولیت بھی ہوئی، اور اس سے علیحدگی بھی. بعد ازاں کچھ عرصہ جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے بزرگوں کی جانب سے کسی نئی اجتماعی جدوجہد کے آغاز کا انتظار کرنے.

اور بالآخر اس سے مایوس ہونے پر، اپنی ذاتی حیثیت ہی میں اقامتِ دین کی کسی نئی جدوجہد کے آغاز کے ارادے سے اواخر ۱۹۶۵ء میں لاہور مراجعت ہوئی. تحریک کا احیاء تھا جس کے بیسویں صدی عیسوی کے داعئ اول تھے امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور داعئ ثانی تھے مولانا سید ابو الاعلی مودودی مرحوم . مولانا آزاد نے ۱۹۲۰ء میں وقتی حالات اور مشکلات سے بد دل ہونے کے باعث اپنا رخ تبدیل کرکے جو خلاء پیدا کیا تھا، اسے تو لگ بھگ بیس سال کے وقفے کے بعد پر کردیا تھا مولانا مودودی اور ان کی قائم کردہ جماعتِ اسلامی نے، لیکن خود جماعتِ اسلامی نے ۱۹۴۷ء میں ایک وقتی ترغیب سے متاثر ہوکر اصولی اسلامی انقلابی تحریک کی بجائے اسلام پسند، قومی، سیاسی جماعت کا رول اختیار کرکے جو خلا پیدا کیا تھا اسے پر کرنے کی کوشش ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھی اور دین و ملت کی اہم ترین ضرورت بھی! چنانچہ راقم نے لاہور منتقل ہوکر اپنی اصل توجہ اور سعی و جہد کو تو مرتکز رکھا اس مقصد پر، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چونکہ اسے اپنے زمانۂ تعلیم اور اس کے بعد کے گیارہ سالوں کے دوران اللہ کے فضل و کرم سے ایک خصوصی انس پیدا ہوگیا تھا قرآن حکیم کے ساتھ اور خصوصی مناسبت حاصل ہوگئی تھی درس قرآن سے لہٰذا اپنی ذاتی حیثیت میں دعوت و تبلیغِ دین کی ایک حقیر سی کوشش کے طور پر آغاز کردیا حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کا. جن کے ذریعے مطالعۂ قرآن حکیم کے ایک منتخب نصاب کے دروس کی صورت میں قرآن کے انقلابی فکر کی اشاعت اور اقامتِ دین یا اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے لیے موثر دعوت کا آغاز ہوگیا. 

جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کو بالعموم اور اس کی بعد از تقسیم پالیسی سے اختلاف کے باعث علیحدگی اختیار کرنے والوں کو بالخصوص، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے اولاً راقم نے اپنا وہ بیان جو دس سال قبل جماعت کی شوریٰ کی مقرر کردہ جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا "تحریکِ جماعتِ اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ" کے نام سے شائع کیا. اور اس کے ساتھ ہی ماہنامہ میثاق، جس کی اشاعت کچھ عرصے سے مالی بحران کے باعث بند تھی، از سر نو جاری کردیا. اور اس کے ذریعے ایک جانب تحریک جماعت اسلامی کی اشاعت پر جو رد عمل ظاہر ہوا اور اس پر جو تنقیدی تبصرے شائع ہوئے ان کے ضمن میں ضروری وضاحتیں پیش اور دوسری جانب ۵۷.۵۶ء کے بحران کے بعد، دس سال میں جماعتِ اسلامی از کجا تابہ کجا پہنچ گئی تھی اس کے جائزے کے لیے تحریک جماعتِ اسلامی حصہ دوم کی تصنیف کے اعلان کے ساتھ اس کے باب اول "نقضِ عزل" کی سلسلہ وار اشاعت شروع کردی. 

تحریک جماعتِ اسلامی پر جو تبصرے اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے، ان میں بجا طور پر جماعت سے علیحدہ ہونے والوں پر یہ گرفت کی گئی کہ انہوں نے علیحدگی کے بعد خود کوئی مثبت اجتماعی جدوجہد کیوں شروع نہ کی. چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے لکھا:
تدارک کی موثر ترین بلکہ اظہر من الشمس صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان جس بات کو سچ اور درست سمجھے اس کے صرف انفرادی اظہار پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنے ہم رائے و ہم خیال اصحاب سے مل کر اپنے نزدیک سچ اور درست کو بروئے کار بھی لائے. یہ عجیب بات ہے کہ جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والوں نے اپنے اس اقدام کے بارے میں لکھا تو بہت کچھ ہے لیکن اب تک کوئی مثبت اقدام نہیں کیا."

اسی طرح روزنامہ کوہستان لاہور نے لکھا:

اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک سوال قاری کے ذہن میں بڑی شدّت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بارے میں جن لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ صحیح نہج پر کام نہیں کر رہی ہے اور اسی بنا پر وہ اس سے الگ ہوئے کیا انہوں نے علیحدگی کے بعد سے آج تک نو دس سال کے طویل مرحلہ میں اپنے اندازِ فکر کے مطابق کوئی کام بھی کیا. کیونکہ جہاں تک تحریکِ اسلامی کے نصب العین کا تعلق ہے ان حضرات کو پہلے بھی اس سے اتفاق تھا اور اسی بنا پر یہ اس میں شامل ہوئے تھے اور آج بھی جب یہ کتاب طبع ہوکر سامنے آئی ہے انہوں نے اس نصب العین سے اختلاف نہیں کیا. ایسی صورت میں علیحدگی کے بعد اس نصب العین کے لیے اپنے اندازِ فکر اور طریق کار کے مطابق کام کرنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوجاتے.
اور جماعتِ اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ ’زندگی‘ رام پور نے تو نہایت واضح انداز میں مشورہ دیا کہ:

اس کتاب پر اپنا مختصر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات پھر عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب کو اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنی چاہیے کہ جو لوگ انحراف کو سمجھ کر باہر آ چکے ہیں وہ ایک مرکز پر جمع ہوکر ایک جماعت بن جائیں اور اعلائے کلمۃ اللہ کا وہ کام انجام دیں جس کی محبت میں انہوں نے جماعت اسلامی پاکستان سے قطع تعلق کیا ہے. اگر ڈاکٹر صاحب اس میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا"

ان تبصروں کے جواب میں ضروری وضاحتوں کے ساتھ ساتھ راقم نے اس گرفت اور مشورہ کو صحیح قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والوں سے درخواست کی کہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں. چنانچہ میثاق اگست ۶۶ء میں تحریر کیا:

ہمیں اس کوتاہی اور تقصیر کا صاف اعتراف ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ علیحدہ ہونے والوں پر جماعتِ اسلامی اور اس کے ہم خیال حضرات کا یہ الزام بالکل درست ہے کہ انہیں مجتمع ہوکر اس نہج پر عملی جدوجہد کا آغاز کردینا چاہیے تھا جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے.
مزید برآں:

"یہ دوسرے رفقاء کے احساسات کی ترجمانی ہو نہ ہو، ہماری دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، بہرحال اس معاملے میں ہم سب سے مجموعی طور پر کوتاہی ہوئی ہے اور اس الزام کا اصل جواب ہماری جانب سے یہی ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے طریق کار میں جن غلطیوں کی نشاندہی کرکے علیحدہ ہوئے تھے، ان سے پہلو بچا کر اس مقصد کے لیے اجتماعی جدوجہد شروع کی جائے جس کے لیے جماعتِ اسلامی قائم ہوئی تھی. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں. آمین.
(تذکرہ و تبصرہ، میثاق، لاہور بابت اگست ۱۹۶۶)

میرے اس واضح اعترافِ تقصیر اور مخلصانہ تذکیر و تنبیہ کا یہ نتیجہ تو فوری طور پر بر آمد ہوگیا کہ جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے حضرات کے حلقے میں کسی نئی تعمیر و تنظیم کی خواہش نے از سرِ نو انگڑائی لی. چنانچہ اولاً جون ۶۷ء میں ایک نئی اسلامی تنظیم کے قیام کے لیے قرار دادِ تاسیس پر میرا اور سردار محمد اجمل خاں لغاری مرحوم کا اتفاق ہوا، پھر اس پر مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالغفار حسن، اور شیخ سلطان احمد (کراچی) نے بھی صاد فرمایا، بعد ازاں مؤخر الذکر دو بزرگوں کی مساعی سے اسی کی اساس پر ستمبر ۶۷ء میں اجتماعِ رحیم یار خاں منعقد ہوا جس میں اچھی خاصی تعداد میں پرانے رفقاء و احباب جمع ہوئے. اور متذکرہ بالا قرار دادِ تأسیس کی توثیق کے علاوہ سات حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی جسے مجوزہ تنظیم کے دستور اور لائحہ عمل کی تدوین کی ذمہ داری سونپ دی گئی. لیکن افسوس کہ اس کے فوراً بعد چند حوادث ایسے پیش آگئے کہ اس نئی تنظیم کا شیرازہ بندھنے سے پہلے ہی بکھر گیا. اور دوبارہ.ع."آں قدح بشکست و آں ساقی نماند" والی صورت پیدا ہوگئی. اور اس طرح صرف جماعتِ اسلامی کے ساتھ سابقہ تعلق کی قدرِ مشترک کی اساس پر کسی نئی اجتماعیت کے قیام کی یہ آخری اور نہایت بھرپور کوشش بھی ناکام ہوگئی. اور صاف محسوس ہوا کہ مسلسل دس سال تک کسی تنظیم یا تحریک سے عدم وابستگی کی بنا پر نہ صرف یہ کہ ولولے سرد اور جذبے ٹھنڈے پڑچکے ہیں اور وہ صورت بتمام و کمال پیدا ہوچکی ہے کہ ؎

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے!

بلکہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ تصورات اور نظریات کی گاڑی ریورس گیئر (REVERSE GEAR) میں پڑ کر رجعتِ قہقری اختیار کرچکی ہے. فواحسرتا و یا اسفاً. 

راقم کو متذکرہ بالا کوشش کی ناکامی سے صدمہ تو بہت ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس نے جلد ہی پورے معاملے کو مشیت ایزدی کے حوالے کرکے اپنی پوری سعی و جہد اور تمام توجہات کا تعلیم و تعلم قرآن پر مرتکز کردیا اور آج محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ (آل عمران:۲۷اسی طرح اس کی قدرت کا ایک مظہریہ بھی ہے کہ وہ ظاہر شر کے پردے میں سے خیر بر آمد فرما دیتا ہے، بفحوائے الفاظ قرآنی عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ (البقرہ:۲۱۶اس لیے کہ اس حادثے کے بعد جب راقم نے اپنی جملہ توانائیوں اور صلاحیتوں کو کامل یکسوئی کے ساتھ قرآن حکیم کے درس و تدریس اور نشر و اشاعت میں لگا دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کی فضا میں دعوت رجوع الی القرآن کا غلغلہ بلند ہوگیا. اور تعلیم و تعلم قرآن کی ایک جاندار تحریک کا آغاز ہوگیا. جس کے اثرات گزشتہ بائیس سالوں کے دوران بفضل اللہ وعونہ، دنیا کے کونے کونے تک، جہاں بھی اردو سمجھنے اور بولنے والے لوگ موجود ہیں، نہ صرف پہنچ گئے ہیں بلکہ دور دراز گوشوں میں آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے از خود بڑھتے چلے جا رہے ہیں! یہاں تک کہ اس احقر الانام کو حق الیقین کی حد تک وثوق حاصل ہے کہ اگر ہماری شامتِ اعمال، یا تقصیرِ ہمت اور کوتاہئ عمل کے باعث مملکتِ خداداد پاکستان میں یہ دعوتِ قرآنی انقلابِ اسلامی پر منتج نہ ہوسکی تو الفاظِ قرآنی: فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹﴾ (الانعام: ۸۹کے مصداق اللہ تعالیٰ کسی اور خطہ ارضی کو یہ سعادت لازماً عطا فرما دے گا کہ وہ قرآن کے اس انقلابی فکر کو حرزِ جاں بنا کر جسے دورِ حاضر کے شعور کی سطح (LEVEL OF CONSCIOUSNESS) پر ایک مؤثر دعوت کی صورت دینے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے اپنے اس عاجز بندے کو عطا فرمائی ہے، بالفعل "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" اور "غلبۂ دینِ حق کے دور ثانی" کا گہوارہ بن جائے. اور وہ سورت عملاً پیدا ہوجائے جس کی پیشن گوئی اب سے ساٹھ ستر سال قبل اس مردِ قلندر نے کی تھی جس کا نام اقبال تھا. یعنی ؎

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود 
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

اس سے قبل کہ اس قرآنی تحریک کے چوبیس سالہ سفر کے اہم نشاناتِ راہ اور سنگ ہائے میل کا تذکرہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حقیقتِ واقعی کی جانب اشارہ کردیا جائے کہ اس دعوتِ قرآنی نے.ع. اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے" کے مصداق بحمد اللہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اعوان و انصار کی ایک جمعیت پیدا کرلی تو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور سے قطع نظر جب راقم نے ۶۷ء والی قرار داد ہی کی اساس پر پورے آٹھ برس بعد ۱۹۷۵ء میں از سرِ نو دعوتِ تنظیم دی تو اس پر لبیک کہنے والے اکیاسی افراد میں سے جماعتِ اسلامی سے سابقہ تعلق کی قدرِ مشترک کے حامل اشخاص تین چار سے زیادہ نہیں تھے، باقی سب کے سب اس دعوتِ قرآنی ہی کے شجرۂ طیبہ کے تازہ پھل تھے! گویا کہ موجودہ تنظیمِ اسلامی بھی . ع "اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں" کے مصداق اسی دعوتِ قرآنی کے برگ و بار کی حیثیّت رکھتی ہے. فللہ الحمد والمنۃ

رجوع الی القرآن کی جس دعوت اور تعلیم و تعلم قرآن کی جس تحریک کے نمایاں نشاناتِ راہ اور اہم سنگ ہائے میل اس وقت صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے مطلوب ہیں، اس کے سفر کا آغاز ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے فوراً بعد اوائل اکتوبر میں ہوا تھا اور ان سطور کی تحریر کے وقت (مارچ ۸۹ء) تک راقم کی عمرِ عزیز کے پورے ساڑھے تئیس برس اس کی نذر ہوچکے ہیں! گویا حفیظ کے درجِ ذیل شعر میں نصف کے بجائے ربع کا لفظ رکھ دیا جائے تو وہ راقم الحروف کے مناسبِ حال ہوجائے گا ؎

تکمیل اور تدوینِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں 

ان میں سے پہلے ساڑھے چھ برس راقم نے بالکل تنہا کام کیا. اس لیے کہ اس وقت نہ کوئی انجمن تھی، نہ تنظیم، ایک اشاعتی ادارہ تھا تو وہ بھی خالص ذاتی، اور اس بھری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید و نصرت اور اپنے ذاتی عزم و ہمت کے سوا کچھ میسر تھا تو صرف مولانا امین احسن اصلاحی کی مشفقانہ ’سرپرستی‘... اور کچھ حقیقی بھائیوں کا تعاون!
ان سوا چھ سالوں میں سے بھی پہلے دو سالوں کے دوران، جیسے کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے راقم کی توجہات دو کاموں پر منقسم رہیں، ایک تنظیمِ اسلامی کا قیام اور دوسرے حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن اواخر اکتوبر ۱۹۶۷ء میں تنظیمِ اسلامی کی مجلسِ مشاورت کا جو اجلاس سکھر میں ہوا تھا اسی میں تنظیم کی بساط اصولی طور پر لپٹ گئی تھی، لہذا اواخر ۶۷ء سے مارچ ۷۲ء تک گویا مسلسل ساڑھے چار برس (۱راقم کی جملہ توانائیاں اور تمام اوقات دعوت رجوع الی القرآن اور تحریکِ تعلیم و تعلمِ قرآن کی داغ بیل ڈالنے میں صرف ہوئے جس کے نتیجے میں مارچ ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور وجود میں آئی. 

اس کے بعد تین سال اس دعوت اور تحریک کے شباب کا دور ہیں، اس لیے کہ اب راقم یکہ و تنہا نہیں تھا بلکہ ؎

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں

اور ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہ رو ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا

کے مصداق اس کی ذاتی مساعی کے ساتھ اعوان و انصار کی ایک جماعت کی محنت و مشقت اور خلوص و اخلاص کا سرمایہ بھی شامل ہوگیا تھا.

مارچ ۱۹۷۵ء میں اسی دعوت رجوع الی القرآن اور تحریکِ تعلیم و تعلم قرآن کی کوکھ سے تنظیم اسلامی نے جنم لیا. لہذا بعد کے چودہ سالوں کے دوران راقم کی توانائیاں پھر منقسم ہوگئیں. تاہم وابستگانِ انجمن کے تعاون واشتراک اور جماعتی زندگی کی برکات کے طفیل قرآنی دعوت و تحریک کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی، چنانچہ اس چمنِ قرآنی کی اصل بہار کا عرصہ ۷۵تا ۸۲ء کے سات سال ہیں جن کے دوران کچھ اعوان و انصار کی محنت و مشقت اور کچھ خارجی اسباب کی بنا پر یہ دعوت و (۱) یہی وجہ ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی قرار دادِ تاسیس میں یہ الفاظ شامل ہیں:

اور چونکہ ہمیں اس ضمن میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے خیالات سے کامل اتفاق ہے.. اور ہم اس کام کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں جو وہ گزشتہ ساڑھے چار سال سے کر رہے ہیں. لہذا.." 
تحریک واقعۃً(LILY IN BLOOM) کی صورت اختیار کر گئی..!

گزشتہ سات سالوں کے دوران ایک جانب تو تدریجا .ع. مضمحل ہوگئے قوی غالب. کا طبعی ظہور ہوا. اور دوسری جانب تنظیمِ اسلامی کے مسائل و معاملات نے بھی وقت اور قوت میں سے ضروری حصہ وصول کرنا شروع کردیا لہٰذا فطری طور پر تعلیم و تعلمِ قرآن کے ضمن میں راقم کی ذاتی مساعی کا حصہ کم ہوتا چلا گیا، تاہم چونکہ اب بحمد اللہ ایک جانب ایک منظم انجمن اور مستحکم ادارہ بھی موجود ہے، اور دوسری طرف بفضلہٖ تعالیٰ میرے اپنے فرزندوں سمیت نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد بھی اس مشن کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت کا ثبوت دے چکی ہے. لہذا میں مطمئن ہوں کہ ان شاء اللہ العزیز و بعونہ یہ قافلۂ دعوت رجوع الی القرآن و تحریکِ تعلیم و تعلم قرآن "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" اور دینِ حق کے عالمی غلبے کی منزل کی جانب پیش قدمی جاری رکھے گا! اللہم امین!! 

اور ان سطور کی تحریر کے وقت، جبکہ حیاتِ مستعار کے بحسابِ شمسی ستاون اور بحساب قمری انسٹھ برس پورے ہونے کو ہیں، اور میں اپنے آپ کو دنیا کے مقابلے میں آخرت سے قریب تر محسوس کرتا ہوں بحمد اللہ دل کو یہ گہرا اطمینان حاصل ہے کہ . ع. جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے. کے مصداق عمر کے بہتر اور بیشتر حصے کے دوران جسم و جان کی بہتر اور بیشتر توانائیاں نویدِ نبوی:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ کے مطابق بہترین کام میں صرف ہوئی ہیں. گویا ؏ "شکر صد شکر کہ جمازہ بمنزل رسید" اس کے ساتھ ہی دل میں اس امید کا چراغ بھی روشن ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی توفیق عطا فرمائی تو لغزشوں، خطاؤں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے ہوئے شرفِ قبول بھی ضرور عطا فرمائے گا. اور عجیب نویدِ جانفزا کا معاملہ ہے کہ جیسے ہی یہ الفاظ نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوئے ایک جانب دل کی گہرائیوں سے حدیثِ قدسی کے الفاظ طلوع ہوئے کہ (اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ) اور دوسری جانب ذہن میں کسی شاعر کا مصرعہ ابھرا. ؏ "وَ اَرْجُوْہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبٗ"
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ آٰمِیْن یا رب العلمین!!