یہ مختصر سی تحریر مئی ۶۷ء میں راقم کے قلم سے کسی انتہائی جذب و کیف کے عالم میں صادر ہوکر جون ۶۷ء کے میثاق میں بطور تذکرہ و تبصرہ شائع ہوئی تھی اور اس میں ایمان و اسلام کے اعتبار سے موجود الوقت احوال کا جائزہ لے کر "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" کی پہلی شرط لازم یعنی "تجدید ایمان" کے لیے قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت کی اساس اور وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر. "ایک زبردست علمی تحریک" کی ضرورت کی نشاندہی کی گئی تھی. اور اس کے آغاز کے لیے ایک "قرآن اکیڈمی" کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی. بعد میں اسے کتابچے کی صورت میں شائع کیا گیا جس کو تعلیم و تعلم قرآن کی فکری اساس اور مینی فسٹو (MANIFESTO) کی حیثیت حاصل ہوگئی.
اس تحریر پر سب سے پہلا رد عمل، اور سب سے گہرا تاثر تو پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کی جانب سے ظاہر ہوا. چنانچہ انہوں نے زبانی تو یہ فرمایا کہ: گزشتہ پچاس سال کے دوران جتنا دینی لٹریچر کم از کم اردو زبان میں شائع ہوا ہے وہ سب میری نظر سے گزرا ہے، لیکن میں نے اس معیار کی کوئی تحریر آج تک نہیں دیکھی!... اور پھر شدتِ تاثر میں ایک مبسوط مقالہ سپرد قلم کردیا (جو اس کتاب میں بھی شامل کیا جا رہا ہے) اور چونکہ اس مقالے نے میری پرزور تائید اور کلی تصویب و تحسین کے علاوہ بجائے خود "فکر مغرب کی اساس اور اس کا تاریخی پس منظر" کے مضوع پر ایک نہایت قیمتی دستاویز کی صورت اختیار کرلی تھی، لہذا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے فلسفہ کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے نفسیات کے لیے داخلہ دلوا کر ڈاکٹر محمد اجمل صاحب کی شاگردی میں دے دیا تھا.
لیکن پھر اچانک گھر بیٹھے پی ایچ ڈی کے لیے وظیفہ مل جانے پر وہ انگلستان چلے گئے تھے. اس پر خاندان کے تقریباً سب ہی لوگ پریشان تھے کہ ایک تو انگلستان کا ماحول، اور دوسرے فلسفے کی تعلیم!!! اللہ ہی خیر کرے!! تاہم مجھے ایک گونہ اطمینان حاصل تھا اس لیے کہ چار پانچ سال قبل منٹگمری میں جو اسلامی ہاسٹل میں نے قائم کیا تھا وہ اس میں مجھ سے مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس لے چکے تھے اوران کے ذہن کو حکمت قرآنی سے مناسبت حاصل ہوچکی تھی. تاہم جب میں نے ان کے ۱۴دسمبر۶۷ء کے خط میں یہ الفاظ پڑھے: "نومبر دسمبر۶۷ء کا میثاق مضامین کے تنوع کے اعتبار سے بہت اچھا تھا. پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کا مضمون "فکر مغرب کی اساس اور اس کا تاریخی پس منظر) خاصا معلومات افزا ہے، اور تحریر میں بھی ان کا زور دار انداز تکلم جھلکتا ہے..." تو رہی سہی تشویش بھی ختم ہوگئی اور پھر جب ۲۵ دسمبر ۶۷ء کے خط میں انہوں نے لکھا: (شائع شدہ: میثاق فروری۶۷ء).
"جون ۶۷ء کے پرچے کا "تذکرہ و تبصر" بلا مبالغہ پانچ چھ مرتبہ پڑھا ہے، اور ہر بار کوئی نہ کوئی نیا نکتہ ہاتھ لگا ہے"
تب تو کامل اطمینان حاصل ہوگیا کہ "ان شاء اللہ العزیز" انگلستان کا ماحول اور فلسفے کی تعلیم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی. اور الحمد للہ کہ راقم کا یہ وثوق و اطمینان صحیح ثابت ہوا. "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ"!!
انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کی تربیت گاہوں میں راقم الحروف نے اپنی اس مختصر تحریر کو بارہا وضاحت کے ساتھ بیان کیا تو تین تین گھنٹوں کی کم از کم دو نشستوں میں بات مکمل ہوسکی. اور رفقاء و احباب نے اس تاثر کا شدت اور اصرار کے ساتھ اظہار کیا کہ اس کی شرح لکھی جانی چاہیے. اب یہ اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ کب اور کون اس خدمت کو سر انجام دیتا ہے. ہوسکتا ہے کہ عزیزم ابصار احمد سلمہٗ ہی جنہوں نے اس کا انگریزی میں نہایت خوبصورت ترجمہ کیا ہے کبھی اس اہم خدمت کا بیڑا بھی اٹھا لیں. اگر وہ ایسا کریں تو الفاظِ قرآنی وَ کَانُوۡۤا اَحَقَّ بِہَا وَ اَہۡلَہَا ؕ (الفتح: ۲۶)کے مصداق اس کے حقدار ہی نہیں، ذمہ دار بھی ہیں، اور فلسفے میں ایم فل (ریڈنگ) اور پی ایچ ڈی (لندن) کی ڈگریاں رکھنے کے ناطے یقیناً اہل بھی ہیں!
بہرحال راقم کو یقین ہے کہ ان شاء اللہ العزیز یہ کتابچہ علامہ اقبال مرحوم کی فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے ساتھ حکمتِ ایمانی کی تدوینِ جدید کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنے والے ضمیمے کی حیثیت سے تادیر زندہ رہے گا. واللہ اعلم!