دعوت رجوع الی القرآن، کے ضمن میں فکری اعتبار سے جو حیثیت "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" کی ہے، بحمد اللہ دینی اعتبار سے وہی مرتبہ و مقام: مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" کا ہے. 

اس کا اساسی تانا بانا مسجد خضراء سمن آباد میں میرے دو اوّلین خطاباتِ جمعہ (جنوری ۶۸ء) میں تیار ہوا تھا. اس کے بعد فروری میں میں نے اسی موضوع پر متعدد مقامات پر (قصور، صادق آباد، جھنگ وغیرہ) تقاریر کیں، اور چونکہ .ع. آتے ہیں غیب سے. یہ مضامیں خیال میں" کے مصداق میرے ذہن میں خیالات کا ترشح تقریروں کے دوران ہی ہوتا ہے، لہذا رفتہ رفتہ اس کتابچے کے مضامین بھی پختہ تر اور مکمل تر ہوتے گئے. تاآنکہ وسط ۱۹۷۰ء میں جبکہ میں شدید علالت کی بنا پر آرام کی غرض سے جوہر آباد بڑے بھائی اظہار احمد صاحب کے یہاں پندرہ روز کے لیے مقیم تھا، میں نے اسے موجودہ کتابی صورت میں مرتب کردیا. 

اللہ تعالیٰ نے اس "بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم" بقامت کہتر ولے بقیمت بہتر" کتابچے کو عوام و خواص دونوں میں جو قبول عام عطا فرمایا اس کا تفصیلی بیان ضروری بھی نہیں اور اس میں کچھ زیادہ ہی خود ستائی کا اندیشہ ہے لہٰذا صرف چند اشارات پر اکتفا کی جا رہی ہے: 

1. اب تک ہمارے اپنے اہتمام میں اس کے آٹھ ایڈیشن تو برائے فروخت طبع ہوچکے ہیں جن کے دوران کل ایک لاکھ چھبیس ہزار نسخے شائع ہوئے. مزید بر آں ایک سال ماہ رمضان مبارک میں اس کا ایک سستا ایڈیشن مفت تقسیم کے لیے شائع کیا گیا تھا اور وہ بھی ایک لاکھ کی تعداد میں 
طبع ہوا تھا... اس کے علاوہ بہت سے اداروں (مثلاً کراچی کے صدیقی ٹرسٹ اور پاکستان نیشنل آئلز کی سیرت کمیٹی وغیرہ) نے اسے بڑی تعداد میں اپنےطور پر شائع کیا. 

۲. اس پر مولانا امین احسن اصلاحی اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے نہایت اعلی تقاریظ لکھیں (ان کی تفصیل کی اس لیے کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ کتابچے کے آخر میں مستقلاً شائع ہوتی ہیں)

۳. پروفیسر یوسف سلیم چشتی ماڈل ٹاؤن لاہور کی کسی کوٹھی میں ہفتہ وارمجلس سے خطاب فرمایا کرتے تھے. اس کتابچے کی اشاعت کے بعد انہوں نے اجتماعات میں ان ہی پانچ حقوق کو سلسلہ وار بیان کیا. اور پھر سامعین کا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا کہ "آپ آج تک تو ادھر ادھر ہی کی باتیں کرتے رہے تھے، مفید دینی تقریریں تو آپ نے اب کی ہیں".
۴. اس کا انگریزی ترجمہ پروفسیر محمد ابراہیم مرحوم نے جو ان ہی دنوں ہیلی کالج آف کامرس کے شعبۂ انگریزی کی صدارت سے فارغ ہوئے تھے، انتہائی محنت اور ذوق و شوق کے ساتھ کیا . پھر سکرپٹ کو خود ہی ٹائپ بھی کیا اور پریس میں ٹائپ 
SETTING بھی خود اپنی نگرانی میں کرائی اور دو تین بار پروف بھی خود پڑھے! (اور یہ سارا کام کلیۃً از خود، اور بغیر کسی معاوضے کے کیا!)

۵. اسی طرح اس کا فارسی ترجمہ بھی ڈاکٹر محمد بشیر حسین مرحوم، سابق صدر شعبۂ فارسی، جامعہ پنجاب نے بالکل اسی شان کے ساتھ بلا فرمائش از خود و بلامزدکیا. (پروفیسر ابراہیم صاحب سے تو کسی حد تک میری ذاتی شناسائی تھی اس لیے کہ وہ سمن آباد کے درس کے مستقل شرکاء میں سے تھے! ڈاکٹر بشیر صاحب سے تو میرا سرے سے کوئی تعارف ہی نہیں تھا!)
۶. اسی طرح اس کا عربی ترجمہ برادرم صہیب حسن خلف الرشید مولانا عبدالغفار حسن نے بھی از خود کیا. اور اس کا سبب یہ بیان کیا کہ "جب میں نے اس کتابچے کو پڑھا اور اس کا گہرا اثر اپنے دل پر محسوس کیا اس پر مجھے خیال آیا کہ اگر اس کتاب کا اثر ایک مولوی کے دل پر بھی ہوسکتا ہے تو عام لوگوں کے حق میں تو یقیناً کیمیا ثابت ہوگا! ان کا ترجمہ پہلے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ماہوار مجلہ البعث الاسلامی میں پانچ اقساط میں شائع ہوا. بعد ازاں جمعیۃ خدام القرآن المرکزیہ بلاہور نے اسے کتابچے کی صورت میں طبع کیا. 
۷. حال ہی میں اس کا سندھی ترجمہ بھی "انجمن خدام القرآن سندھ کراچی" نے شائع کیا ہے. 

۸. ایک افغان مہاجر عالمِ دین نے اس کا پشتو ترجمہ بھی مکمل کرکے ازخود چھپوانے کے لیے کتابت کی غرض سے ایک کاتب صاحب کو دے دیا تھا. افسوس کہ اس کے بعد وہ کاتب صاحب لاپتہ ہوگئے! اللہ کرے کہ زندہ ہوں، اور ان عالمِ دین کی محنت رائیگاں نہ جائے.!

۹. آخری اور اہم ترین بات یہ کہ اس کتابچے کو راقم الحروف نے نومبر ۱۹۷۰ء میں مدینۂ منورہ میں مولانا سید محمد یوسف بنوری کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ وہ اسے ایک نظر دیکھ لیں اور اگر کوئی غلطی محسوس کریں تو اصلاح فرما دیں. اس لیے کہ میں اسے بڑی تعداد میں شائع کرنا چاہتا ہوں، تو الحمد للہ کہ مولانا نے مسجد نبوی میں اعتکاف کی حالت میں اس کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا اور صرف ایک مقام پر اصلاح تجویز فرمائی جو اگلے ایڈیشن میں کردی گئی.. اس طرح بحمد اللہ اس کتابچے کو مولانا بنوری کی کلی تصدیق و تصویب کی سعادت حاصل ہے!

بہرحال راقم کے نزدیک اس کا سب سے بڑا توشۂ آخرت یہ کتابچہ ہے، اس لیے کہ ظاہر ہے کہ وہ ان لوگوں میں تو شامل نہیں ہے جو ؏ "من نیز حاضر می شوم تفسیر قرآن در بغل" پر تکیہ کرسکیں. تاہم راقم کو یقین ہے کہ اللہ کے بہت سے بندوں کو اس کتابچے کے ذریعے تذکر بالقرآن ، اور تدبرِ قرآن کی ترغیب حاصل ہوئی ہے. اور ان شاء اللہ العزیز آئندہ بھی ہوتی رہے گی. 
فلہ الحمد والمنۃ. 

ان دو اساسی کتابچوں کے علاوہ دعوتِ رجوع الی القرآن کے دورِ اول میں راقم کے دو اور کتابچے بھی شائع ہوئے اور ان کے بھی اب تک متعدد ایدیشن طبع ہوچکے ہیں! جن کا سرسری سا تذکرہ درج ذیل ہے: