مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام

اس دعوت و تحریکِ قرآنی کا دور، ثانی مارچ ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور، کے قیام سے شروع ہوتا ہے. جو تاحال جاری ہے! اس انجمن کے قیام کا جو پس منظر راقم نے ۱۹۷۲ء ہی میں تحریر کیا تھا حسبِِ ذیل ہے:
راقم الحروف نے مارچ ۶۷ء سے جون۶۷ء تک ایک سلسلہ وار مضمون ماہنامہ میثاق لاہور کے ادارتی صفحات میں لکھا تھا جس میں تحریکِ پاکستان کے فکری اور جذباتی پس منظر کا جائزہ بھی لیا گیا تھا اور متعین طور پر یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے بنیادی عوامل میں مذہبی اور دینی داعیے کا حقیقی اور واقعی تناسب کس قدر تھا. اور یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں اربابِ اقتدار اور دین کی علمبردار جماعتوں کے مابین جو کشمکش جاری رہی اس کا میزانیۂ نفع و نقصان کیا ہے. اس مسلسل مضمون کا اختتام اس تحریر پر ہوا جو بعد میں 
"اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام" کے نام سے کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی اور جس میں احیائے اسلام کے لیے صحیح اور مثبت لائحہ عمل کی نشاندہی کی گئی اور اس کے ذیل میں ایک قرآن اکیڈمی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی. 

اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس لائحہ عمل کے پیش کرنے کے بعد بلا تاخیر اس پر عملی جدوجہد کے آغاز کی توفیق بھی بارگاہِ خداوندی سے حاصل ہوگئی. چنانچہ ایک طرف لاہور میں
حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کا قیام عمل میں لایا گیا. دوسری طرف دار الاشاعت الاسلامیہ کے تحت علومِ قرانی کی عمومی نشر و اشاعت کی سعی کی گئی اور تیسری جانب سلسلۂ اشاعت قرآن اکیڈمی کے عنوان سے پے بہ پےکئی کتابچے اس مقصد سے شائع کیے گئے کہ اس کام کی اہمیت بھی لوگوں پر واضح ہو اور اس کا استدلالی پس منظر بھی نگاہوں کے سامنے رہے. راقم کو اس کام کا آغاز بالکل تنہا کرنا پڑا تھا. اس لیے کہ کسی بھی کام میں ساتھی اور رفیق اس کام کے ایک حد تک چل نکلنے کے بعد ہی ملا کرتے ہیں. تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچ سال سے بھی کم مدت کی حقیر سی مساعی کا یہ ثمرہ نگاہوں کے سامنے ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ؎

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں

اور ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہ رو ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا!

اس کامیابی کا اصل سبب تو یقیناً فضلِ خداوندی اور توفیق ایزدی کے سوا اور کچھ نہیں لیکن اس فضل و توفیق کا ایک مظہر یہ ہے کہ راقم نے اس کام کو نہ تو کسی تفریحی مشغلے کے طور پر کیا اور نہ محض جزوقتی طور پر، بلکہ زندگی کا ایسا مقصد سمجھ کر کیا جس پر نہ پیشہ ورانہ مصروفیت مقدم رہی نہ صحت جسمانی بلکہ ایک ایک کرکے ہر چیز داؤ پر لگ گئی. گویا ؎

خیریت جاں ، راحتِ تن، صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی

اور یہ بہرحال قدرت کا اٹل قانون ہے کہ کسی کام کے چل نکلنے کے بعد تو اس کا امکان بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے ساتھ جزوی طور پر وابستہ ہوسکے اور اپنی صلاحیت کار اور قوت و فرصت کا صرف ایک معین اور محدود حصہ صرف کرکے بھی کچھ نہ کچھ مفید خدمت انجام دے لے. لیکن آغازِ کار کیلیے تو لازم ہے کہ انسان بالکل دیوانگی کی سی کیفیت کے ساتھ پوری متاعِ زیست کو داؤ پر لگادے ؎

در رہِ منزلِ لیلیٰ کہ خطرہا ست بے
شرطِ اوّل قدم این است کہ مجنوں باشی

بہرحال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ایک بندۂ ناچیز اور عبدِ ضعیف کی حقیر سی مساعی کو اس درجہ مشکور فرمایا کہ ایک طرف درس و تدریس اور تعلیم و تعلم ِ قرآن کا سلسلہ لاہور اور بیرونِ لاہور روز افزوں ہے اور کچھ باہمت نوجوان اپنے اوقات کی متاعِ عزیز اور صلاحیتوں اور قوتوں کا اثاثہ لے کر یعنی "بانفسہم" نصرت کے لیے حاضر ہوگئے ہیں. اور دوسری طرف کچھ حضرات روپے پیسے سے یعنی "باموالہم" شرکت کے خواہاں ہیں. چنانچہ انہوں نے راقم کے پیشِ نظر کاموں میں باضابطہ تعاون کے لیے کمر ہمت کس لی ہے اور "قرآن حکیم کے علم و حکمت کی وسیع پیمانے پر تشہیر و اشاعت" اور "قرآن اکیڈمی" کے مجوزہ خاکے کو عملی شکل دینے کے لیے "مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور" کے نام سے ایک باقاعدہ ادارے کے قیام کا فیصلہ کرلیا ہے. 

اللہ تعالیٰ ان حضرات کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت عطا کرے اور ہم سب کو اپنے دین کی بالعموم اور اپنی کتابِ عزیز کی بالخصوص خدمت کی بیش از بیش توفیق عطا فرمائے. آمین.

جہاں تک راقم کا تعلق ہے تو محض 
تحدیثاً للنعمۃ عرض ہے کہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے اس شعر کے مصداق کہ ؎

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

راقم کا حال اب واقعۃً یہ ہے کہ زندگی میں کوئی تمنا سوائے "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" اور "غلبۂ دینِ حق کے دور ثانی" اور اس کے لیے لازمی طریق کے طور پر افشائے کلامِ ربانی اور تشہیرِ علم و حکمتِ قرآنی کے باقی نہیں رہی.
راقم نے اپنے بچپن میں نہایت ذوق و شوق سے حفیظ کا شاہنامہ پڑھا تھا. حضرت حفیظ بعد میں تو اللہ بہتر جانتاہے کہ کن کن وادیوں میں سرگرداں رہے. بہرحال شاہنامے کی تصنیف انہوں نے جس جذبے کے تحت کی تھی وہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہے کہ: 

کیا فردوسئ مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں اسلام کو زندہ

حقیقت یہ ہے خود راقم کا واقعی حال اب یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی تمنا یا خواہش دل میں باقی نہیں رہی کہ احیائے اسلام کے عظیم مقصد کے لیے کم از کم اتنا تو ہو کہ ؏ 

خدا توفیق دے تو میں کروں قرآن کو زندہ!

راقم کے لیے یہ یقیناً بہت چھوٹا منہ اور بہت بڑی بات ہے لیکن اللہ کی قدرت سے تو بہرحال کوئی چیز بھی بعیدی نہیں. کیا عجب کہ وہ راقم کو اس خدمت کے لیے قبول ہی فرما لے 
اردو کی ایک عوامی کہاوت ہے "ایک اکیلا دو گیارہ" ... یہ ایک شخص کے ساتھ ایک دوسرے فرد کے اضافے کے بارے میں تو ہو سکتا ہے کہ کسی قدر مبالغے پر مبنی ہو لیکن ایک فرد کے ساتھ ایک انجمن کے اضافے کی برکات کی تعبیر کے لیے تو صد فی صد درست ہے، لہٰذا قیام انجمن کے معاً بعد اس دعوت و تحریکِ قرآنی کی رفتار کم از کم دہ چند ہوگئی.