۱۹۷۲ میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے قیام سے جہاں اس دعوتِ رجوع الی القرآن اور تحریک تعلیم و تعلم قران کی رفتار میں ایک دم تیزی آئی اور اس کی توسیع اور اثر و نفوذ کی نئی نئی جہتیں وجود میں آئیں. وہاں راقم کو ایک ذاتی نقصان بھی ہوا. یعنی انجمن کے قیام کے ساتھ ہی راقم مولانا امین احسن اصلاحی کی اس سرپرستی سے محروم ہوگیا. جس کا ذکر اس تحریر کے بالکل آغاز میں کیا گیا اور جو بلاشک و شبہ اس دعوت و تحریک کے ضمن میں راقم کے ابتدائی سرمائے کا اہم حصہ تھا.
اس کی مفصل داستان تو راقم ۱۹۷۶ء میں سپرد قلم کرچکا ہے، اب اسے دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں، سوائے ایک اہم نکتہ کی وضاحت کے جس پر اس تحریر کا اختتام کیا جا رہا ہے.
وہ معاملہ ہے انجمن کے دستور میں راقم کی حیثیت اور بالخصوص اس کی مجلس منتظمہ کے فیصلوں کے ضمن میں حق استرداد (ویٹو) کا . اس معاملہ میں مولانا جدید جمہوری تقاضوں کے شدت کے ساتھ قائل ہیں، راقم بھی اگرچہ حکومتی اور ریاستی سطح پر اسی کا قائل ہے لیکن جماعتی اور تحریکی سطح پر اسے نہ لازم سمجھتا ہےنہ قابل عمل. اس ضمن میں راقم نے اپنی رائے کو، بحمد اللہ، پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ ۱۹۷۲ء میں انجمن کی تاسیس کے مرحلے ہی پر بیان کردیا تھا. چنانچہ درج ذیل تحریر انجمن کے (۱) (۱) یہ مضمون اسی کتاب کے باب چہارم بعنوان "مرکزی انجمن خدام القرآن کا مؤسس اور اس کے فکر کے عناصر اربعہ میں ص ۱۴۳ تا ص ۱۴۷ شامل ہے. مجوزہ دستور کے ساتھ ہی جولائی ۷۲ء کے میثاق میں بھی شائع ہوگئی تھی اور بعد میں دستورِ انجمن کے ساتھ بھی شائع ہوتی رہی:.
"دوسرا اعتراض جو اس جمہوریت نواز بلکہ جمہوریت پرست دور میں انجمن کے مجوزہ خاکے کے بارے میں پیدا ہونا لازمی ہے یہ ہے کہ اس میں صدر مؤسس کی حیثیت تحکمانہ ہی نہیں آمرانہ ہے. اس ضمن میں ہم اس اعتراف میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے نزدیک کسی دینی خدمت خصوصاً احیائی کوشش کے لیے جو بھی انجمن یا ادارہ وجود میں آئے یا جماعت یا تنظیم قائم ہو اس کا نظم اسی نوعیت کا ہونا چاہیے
وجہ اس کی یہ ہے کہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کا آغاز بالعموم اسی طرح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد کے دل میں اس کام کے لیے ایک شدید داعیہ بھی پیدا فرما دیتا ہے اور اس سلسلے میں موجود الوقت ظروف و احوال کی مناسبت سے اسے کسی خاص طریق کار اور منہج عمل کے لیے انشراحِ صدر بھی عطا فرما دیتا ہے، تب یہ فرد اس کام کو لے کر اٹھتا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے اور صلائے عام دیتا ہے کہ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ (۱) چنانچہ جن لوگوں کو اس کے خیالات سے اتفاق اور خود اس پر شخصی اعتبار سے فی الجملہ اعتماد ہوتا ہے وہ اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں. اور اسے آپ سے آپ ان لوگوں کی رہنمائی کا منصب حاصل ہوجاتا ہے.
اب صاف اور سیدھی صورت یہی ہے کہ اس حقیقت کو خود بھی قبول کیا جائے اور اسی کا اعلانِ عام بھی ہوتا کہ جو بھی آئے اس صورت کو ذہناً قبول کرکے آئے اور بصورتِ دیگر اپنے لیے کوئی اور راہ تجویز کرے. یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی تاریخ کے دوران میں جو احیائی کوششیں ہوئیں ان سب کا کم از کم تحریکِ شہیدین کے زمانے تک تو نظم یہی رہا ہے کہ ایک شخص بحیثیت داعی اٹھتا ہے اور جو لوگ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں وہ آپ سے آپ ایک جماعت بن جاتے ہیں. نہ کوئی شرائطِ رکنیت ہوتی ہیں نہ فارم داخلہ، نہ کہیں سورۃ الصف آیت: ۱۴. کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں. "پانچ سالہ" انتخاب کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے نہ ہی امیر اور شوریٰ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے لیے پیچ در پیچ فارمولے ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی استعفاء یا اخراج کے لیے کوئی ضابطہ بنایا جاتا ہے. بلکہ ایک شخص اپنے ذاتی احساسِ فرض کے تحت کام کا آغاز کردیتا ہے.
پھر جس جس کو اس کے خیالات سے اتفاق اور اس کی ذات پر اعتماد ہوتا ہے اس کا ساتھ دیتا رہتا ہے اور جونہی یہ دونوں.. یا ان میں سے کوئی ایک بات موجود نہیں رہتی اس کا ساتھ چھوڑ کر اپنا راستہ لیتا ہے اور خواہ مخواہ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ (۱) کے قسم کے قضیے کھڑے کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتا. یہ بالکل دوسری بات ہے کہ وہ داعی اگر واقعی مخلص ہے اور خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے اور (۲) وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ کا مصداق بننے کا شوقین نہیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ جماعت میں شورائیت کا ماحول قائم رکھے، تاکہ اطمینان و اعتماد کی فضا برقرار رہے . ہم اس بات کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمارا ذہن بالکل یکسو ہے. ہم نے مجوزہ انجمن کے لیے قواعد و ضوابط کا یہ تھوڑا سا کھکھیڑ بھی صرف اس لیے مول لیا ہے کہ ایک تو یہ جماعت نہیں انجمن ہے اور دوسرے اس کی لا محالہ کچھ جائیداد بھی ہوگی جس کی تولیت کا معاملہ خالص قانونی ہے، ورنہ اگر خدا نے چاہا اور کسی ہمہ گیر دعوت کے آغاز کی توفیق بارگاہ رب العزت سے ارزانی ہوگئی تو اس کا معاملہ ان شاء اللہ خالصتاً اس نہج پر ہوگا جس کا ذکر اوپر ہوچکا.
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے تعلیم و تعلم قرآن کے جس کام کا علم اٹھایا ہے اس کی ابتداء بھی اسی فطری نہج پر ہوئی تھی کہ ایک شخص کے دل میں اس کا داعیہ پیدا ہوا اور اسے کامل (۱) سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۵۴ اختیارات میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے یا نہیں؟
(۲) سورہ نحل آیت نمبر ۹۲ اس عورت کے مانند نہ بن جاؤ جس نے مضبوطی کے ساتھ کاتے ہوئے سوت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا. انشراح ہوگیا کہ فی الوقت "کرنے کا اصل کام" یہی ہے (کہ جا ایں جا است!) چنانچہ اس نے تن تنہا سفر کا آغاز کردیا. تا آنکہ اب صورت یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کی نصرت پر کمر ہمّت کس لی ہے. اس فطری صورت حال کو صرف موجود الوقت رجحانات کے دباؤ کے تحت جمہوری رنگ دینا نہ صرف یہ کہ ایک خواہ مخواہ کا تکلف اور تصنع ہے بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اس طرح تمام وقت قواعد و ضوابط کی خانہ پری اور حدود و اختیارات کی رسہ کشی کے نذر ہوکے رہ جائے گا اور کام کچھ بھی نہ ہوسکے گا. بنا بریں ہم نے وہی راستہ اختیار کیا ہے جو مطابقِ واقعہ بھی ہے اور کام کی مقدار اور رفتار کے اعتبار سے موزوں تر بھی! اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص و اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے دین کی بالعموم اور اپنی کتابِ عزیز کی بالخصوص خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین..... خاکسار اسرار احمد"
الحمد للہ کہ ہمیں اپنی اس رائے کی صحت پر جس قدر اعتماد اس وقت تھا اس سے کم از کم وہ چند انشراح اب حاصل ہے. اس لیے کہ ہمارے نزدیک:
(ا). یہی طریقہ معقول اور منطقی بھی ہے، اور سادہ اور فطری بھی،
(ب). اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسنون و ماثور بھی ہے... (بلکہ "منصوص" بھی!)
راقم اس امر پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرے کم ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ اپنے اس بندہ حقیر کو توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنے اس تصور کے مطابق اولاً انجمن اور بعد ازاں تنظیم اسلامی کو بالفعل قائم کرنے میں، خواہ ادنیٰ درجہ ہی میں سہی، کامیاب رہا، بلکہ اس رائے کی صحت و برکت کا یہ عملی مظہر بھی دنیا کے سامنے پیش کردیا کہ بحمد اللہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی سترہ سالہ تاریخ کے دوران کوئی اکھیڑ پچھاڑ اور دنگا فساد تو درکنار سوائے چند منٹوں پر مشتمل دو مواقع کے کبھی باہمی گفتگو میں تلخی کا انداز بھی پیدا نہیں ہوا اور تمام امور ہمیشہ نہایت خوش اسلوبی اور اتفاقِ رائے سے طے ہوتے رہے، اور ویٹو کے استعمال کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی... اسی طرح تنظیمِ اسلامی میں چودہ سال کے دوران اکا دکا رفقاء نے تو علیحدگی اختیار کی، بحمد اللہ کبھی کسی دھماکے کی نوبت نہیں آئی.اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ . رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ. اٰمِیْن. یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ