چنانچہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام میں طویل نظری مباحث کے بعد "عملی اقدامات" کے ذیل میں جو دو تجاویز پیش کی گئی تھیں ان میں سے پہلی یہ تھی.
"کہ عمومی دعوت و تبلیغ کا ایک ایسا ادارہ قائم ہو جو ایک طرف تو عوام کو تجدید ایمان اور اصلاح اعمال کی دعوت دے اور جو لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں ان کی ذہنی و فکری اور اخلاقی و عملی تربیت کا بندوبست کرے اور ساتھ ہی اس علمی کام کی اہمیت ان لوگوں پر واضح کرے جو خلوص اور درد مندی کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے آرزو مند ہیں اور دوسری طرف ایسے ذہین نوجوانوں کو تلاش کرے جو پیشِ نظر علمی کام کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں"
دوسری تجویز یہ تھی کہ:
"ایک قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے. جو ایک طرف علوم قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت کا بندوبست کرے تاکہ قرآن کا نور عام ہو اور اس کی عظمت لوگوں پر آشکارا ہو اور دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے جو بیک وقت علومِ جدیدہ سے بھی بہرہ ور ہوں اور قرآن کے علم و حکمت سے بھی براہ راست آگاہ ہوں تاکہ متذکرہ بالا علمی کاموں کے لیے راہ ہموار ہوسکے"
اسی طرح تنظیم اسلامی کی تاسیسی قرار داد میں دوسرے امور کے علاوہ یہ صراحت بھی موجود ہے کہ:
"عامۃ الناس" کو دین کی دعوت و تبلیغ کی جو ذمہ داری امت مسلمہ پر بحیثیتِ مجموعی عائد ہوتی ہے، اس کے ضمن میں ہمارے نزدیک اہم ترین کام یہ ہے کہ جاہلیت قدیمہ کے باطل عقائد و رسوم اور دورِ جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کا مدلل ابطال کیا جائے اور حیاتِ انسانی کے مختلف پہلوؤں کے لیے کتاب و سنت کی ہدایت و رہنمائی کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ ان کی اصلی حکمت اور عقلی قدروقیمت واضح ہو اور وہ شبہات و شکوک رفع ہوں جو اس دور کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں".
اور اس کی توضیح میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ:
"اس ضمن میں ہمارے نزدیک اس وقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ایک طرف ادیان باطلہ کے مزعومہ عقائد کا مؤثر و مدلل ابطال کیا جائے اور دوسری طرف مغربی فلسفہ و فکر اور اس کے لائے ہوئے زندقہ و الحاد اور مادہ پرستی کے سیلاب کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے اور حکمتِ قرآنی کی روشنی میں ایک ایسی زبردست جوابی علمی تحریک برپا کی جائے جو توحید، معاد اور رسالت کے بنیادی حقائق کی حقانیت کو بھی مبرہن کردے اور انسانی زندگی کے لیے دین کی رہنمائی و ہدایت کو بھی مدلل و مفصل واضح کردے. ہمارے نزدیک اسلام کے حلقے میں نئی اقوام کا داخلہ اور جسدِ دین میں نئے خون کی پیدائش ہی نہیں خود اسلام کے موجود الوقت حلقہ بگوشوں میں حرارتِ ایمانی کی تازگی اور دین و شریعت کی عملی پابندی اسی کام کے ایک مؤثر حد تک تکمیل پذیر ہونے پر موقوف ہے اس لیے کہ دور جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کے سیلاب میں خود مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد اس طرح بہہ نکلی ہے کہ ان کا ایمان بالکل بے جان اور دین سے ان کا تعلق محض برائے نام رہ گیا ہے اور اسی بنا پر دین میں نت نئے فتنے اٹھ رہے ہیں اور ضلالت و گمراہی نت نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہورہی ہے.
اس سلسلے میں انفرادی کوششیں تو اب بھی جیسی کچھ بھی عملاً ممکن ہیں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی. ضرورت اس کی داعی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وسائل فراہم کیے جائیں اور ایک ایسے باقاعدہ ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو حکمتِ قرآنی اور علمِ دینی کی نشر و اشاعت کا کام بھی کرے اور ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب اور مؤثر بندوبست کرے جو عربی زبان، قرآن حکیم اور شریعتِ اسلامی کا گہرا علم حاصل کرکے اسلامی اعتقادات کی حقانیت کو بھی ثابت کریں اور انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے جو ہدایات اسلام نے دی ہیں انہیں بھی ایسے انداز میں پیش کریں جو موجودہ اذہان کو اپیل کرسکے"
گویا پوری مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اپنے جملہ اغراض و مقاصد اور قرآن اکیڈمی کے منصوبے سمیت تنظیم اسلامی کے متذکرہ بالا مجوزہ ادارے کی حیثیت رکھتی ہے. دوسری طرف تنظیم اسلامی کی حیثیت "عمومی دعوت و تبلیغ" کے اس ادارے کی ہے جس کا ذکر "قرآن اکیڈمی" کے منصوبے کے ضمن میں شرط لازم (PREREQUISITE) کے طور پر کیا گیا تھا. بالفاظ دیگر "انجمن خدام القرآن" اور "تنظیم اسلامی" باہم لازم و ملزوم ہیں یا یک جان دو قالب! اور ان کے مابین ہر گز نہ کوئی تضاد ہے نہ تباین!"
بہرحال ۷۲ء کے بعد تو جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے راقم کی توانائیاں انجمن کے قیام کی بنا پر ایک دم دس گنا ہوگئی تھیں، تنظیم کے قیام کے بعد قوّتِ کار میں مزید اضافہ ہوا اور اس دعوت و تحریک کو گویا دو باز مل گئے. چنانچہ گزشتہ چودہ سالوں کے دوران بحمدرفتار کار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی.
تحریک تعلم و تعلیم قرآن کے اس دورِ ثانی کے لگ بھگ اٹھارہ سالوں کی مفصل روداد تو نہ ممکن ہے نہ مطلوب. تاہم "مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ" کے مصداق قارئین کے لیے "دعوتِ رجوع الی القرآن" کے روح پرور منظر کی ادنیٰ درجہ میں نقشہ کشی کے لیے چند منتخب نکات کا نہایت اجمالی تذکرہ شاملِ کتاب کیا جا رہا ہے.
آخر میں صرف اس تبدیلی کا ذکر مطلوب ہے، جس کی جانب آغاز میں اشارہ کیا گیا تھا یعنی یہ کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران تدریجاً اس تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے.
یہ تیسرا دورِ عبارت ہے اس دعوت و تحریک کی علمبرداری اور ذمہ داری کے اگلی نسل کو منتقل ہونے سے. راقم نے جیسے آغاز میں عرض کیا تھا، اس کے واقعی احساسات کی ترجمانی یا تو اس مصرعے سے ہوتی ہے کہ ؏ "شکر صد شکر کہ جمازہ بمنزل رسید" " یا اس سے کہ ؏ "ہم تو فارغ ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا"
راقم کے لیے یہ احساس فی الواقع بہت اطمینان بخش ہے کہ "دعوتِ رجوع الی القرآن" کے ضمن میں اس نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و تیسیر اور تائید و نصرت سے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے، اور اب اس دعوت و تحریک کے ضمن میں راقم کی آرزوئیں صرف دو ہیں. ان میں سے بھی صرف ایک اس کی ذاتی ہے. اور دوسری خالص فرمائشی، ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ فلسفہ و حکمتِ قرآنی کے بعض اہم لیکن غامض پہلو جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایتِ خصوصی سے راقم کو انشراح عطا فرمایا ہے ضبطِ تحریر میں آجائیں. اور دوسری یہ کہ ایک بار سورۃ الفاتحہ سے آغاز کرکے پورے قرآن مجید کا درس تسلسل کے ساتھ ریکارڈ کرادیا جائے چنانچہ قرآن آڈیٹوریم کی تعمیر اصلاً اسی مقصد سے ہورہی ہے. آگے جو اللہ کو منظور! ہمارا مقام تو بقول اکبر الٰہ آبادی یہ ہے کہ ؎
رضائے حق پہ راضی رہ، یہ حرف آرزو کیسا؟
خدا خالق، خدا مالک، خدا کا حکم! تو کیسا؟