کسی بھی اصولی و نظریاتی تحریک کے کارکنوں کے لیے تربیت گاہوں (Training Camps) کا انعقاد نہایت ضروری ہوتا ہے، ان میں جہاں ایک طرف کارکنوں کے قلوب و اذہان میں اس تحریک کے اصول و نظریات کو راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں دوسری طرف مخالف تحریکوں کی یلغار سے بچنے کے لیے خود ان تحریکوں کے اصول و نظریات سے واقف کرایا جاتا ہے. ان تربیت گاہوں کا ایک کام یہ بھی ہےکہ وہ اپنے کارکنوں کو نہ صرف ان نظریات کا عملی نمونہ بناتی ہے تاکہ وہ اس تحریک کے چلتے پھرتے پیکر نظر آئیں بلکہ وہ اس کا پرچارک اور علمبردار بناتی ہیں. یہ کام دنیا کی دوسری نظریاتی تحریکوں کے لیے ضروری ہو یا نہ ہو، اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریک کے لیے تو انتہائی ضروری (must) ہے.

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے قرآن حکیم کا جو ایک منتخب نصاب مرتب کیا ہے اس کی بنیاد ہی سورۃ العصر پر ہے جس میں عذاب اخروی سے نجات کے لیے کم از کم لوازم بیان کیے 
گئے ہیں. یعنی ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ وہ دل کے پورے یقین کے ساتھ ایمان لائے ان تمام چیزوں پر جن پر ایمان لانے کا اسلام تقاضا کرتا ہے اپنی زندگی میں اس کے مطابق تبدیلی لائے یعنی عمل صالح کا پیکر بن جائے، حق کی تبلیغ کرے، پرچار کرے اس کا علمبردار ہو اور اس کو ادیانِ باطلہ پر غالب کرنے کی جدوجہد کرے اور اس جدوجہد میں صبر و مصابرت سے کام لے. کہیں پیٹھ نہ دکھائے، کوئیPersecution اور کوئی لالچ (Temptation) اس کے قدم راہ اعتدال سے نہ ہٹا سکیں اور یہ کہ نہ مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر شارٹ کٹ (Short Cut) اختیار کرے. اور نہ ہی نیک مقصد کے لیے غلط طریقۂ کار کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ جائے. 

انجمن اپنے کارکنوں کی تربیت سے غافل نہیں ہورہی ہے. یوں تو ہر درس قرآن اور درس حدیث کسی دینی موضوع پر تقریر کی مجلس خود ایک تربیت گاہ ہے. لیکن ایسی تربیت گاہیں جو اقامتی ہوں، جو یا تو کسی ایک شہر کی بنیاد پر یا پھر پورے ملک کی بنیاد پر منعقد کی گئی ہوں، انجمن کے پروگرام میں شامل رہی ہیں. 

۱.لاہور. اگست ۱۹۷۲ء 
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے قیام کے کل چار ماہ بعد ہی پہلی قرآنی تربیت گاہ کا انعقاد عمل میں آگیا. اگست ۱۹۷۲ء کے وسط میں جامع مسجد خضراء سمن آباد میں (جو دعوت رجوع الی القرآن کے اس قافلے کے ضمن میں مکانی اعتبار سے بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتی ہے) دس روز کے لیے منعقد ہوئی. بعد میں ہر سال یہ تربیت گاہیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس پہلی تربیت گاہ کا سرور انگیز نقش جو دل پر قائم ہوا اس کی مٹھاس آج بھی دل میں نشاط کی کیفیت پیدا کرتی ہے. راقم اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا. F.S.C پری میڈیکل کا امتحان پانچ یا چھ ماہ بعد ہونا تھا لیکن اس تریت گاہ میں کل وقتی شرکت ہوئی. قبلِ فجر اجتماعی نوافل کا اہتمام، نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن حکیم، صبح ۸ بجے تا ایک بجے تعلیمی و تربیتی پروگرام، پھر قبلِ نماز عصر تجوید و قراءت کی کلاس جس میں مولانا عبدالرحمن تونسوی صاحب (جو آج کل سعودی عرب میں مقیم ہیں) تجوید کی تصحیح فرماتے تھے، مسجد خضراء کا وسیع ہال لحنِ قرآنی سے گونج اٹھتا تھا، پھر عصر تا مغرب اور مغرب تا عشاء قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس کہ ان دس دنوں میں اس نصاب کی تکمیل کرلی گئی. عشاء کی نماز کے بعد قیام گاہ (قریب ہی موجود سنٹر ماڈل اسکول سمن آباد کی عمارت)پر 
رات گئے تک ادعیۂ ماثورہ، اذکار مسنونہ اور سیرت النبی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا تذکرہ ہوتا تھا. 

اس تربیت گاہ کا انتظام نہایت عجلت میں کیا گیا. وجہ اس کی یہ ہوئی کہ جولائی میں کراچی میں تربیت گاہ منعقد کرنے کا پروگرام تھا لیکن اس ماہ میں کراچی ہی نہیں پورا صوبہ سندھ لسانی فسادات کی لپیٹ میں آگیا اس لیے وہاں اس کا انعقاد ممکن نہ رہا. وقت کی کمی اور مناسب طور پر بروقت لوگوں کو اطلاع نہ ملنے کے باوجود یہ تربیت گاہ ہر اعتبار سے کامیاب رہی. لاہور اور بیرون لاہور سے کم و بیش چالیس پینتالیس شرکاء تو مستقلاً تربیت گاہ ہی میں مقیم رہے اور ان میں اکثریت بحمد اللہ نوجوان طلباء کی تھی. ان کے علاوہ بعد نماز فجر، بعد نماز عصر اور بعد نماز مغرب جو کھلی مجالس ہوتی رہیں ان میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے رہے، یہ حاضری پانچ صد سے بھی تجاوز کر گئی. اس تربیت گاہ میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے مطالعۂ قرآن حکیم کا مرتب کردہ نصاب تقریباً پورا پڑھا دیا. مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے "حجیت حدیث اور اہمیت سنت کے موضوع پر تین نہایت جامع اور مدلل تقریریں کیں. اور بعد ازاں منتخب احادیث کا درس دیا. اس کے علاوہ قاری عبدالرحمن صاحب تونسوی نے تجوید و قراءت کے بنیادی قواعد کی تعلیم دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو نہایت موثر اور مفید خطاب مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کے ہوگئے. 

قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ عرض کردینا مناسب ہے کہ ۱۹۷۴ء میں تنظیم اسلامی کے قیام کے موقع پر تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی اکثریت ان حضرات پر مشتمل تھی جو اس پہلی قرآنی تربیت گاہ میں شرکت کرچکے تھے گویا خالصتاً انفرادی حیثیت میں والدِ محترم کے دروسِ قرآن نے ان حضرات کے کشتِ قلوب میں تخم ریزی کی تھی اور دین کے اجتماعی پہلو کی اہمیت کے اعتبار سے پہلی قرآنی تربیت گاہ نے ان میں کل دس دنوں میں منتخب نصاب کی تکمیل ہوجانے کے باعث اجتماعیت کی اہمیت اور ضرورت اور دین کے کام میں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر باطل اور مزعومہ عقائد و افکار کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کرکام کرنے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا تھا. 

اس پہلی تربیت گاہ کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ ہر سال ایک یا دو تربیت گاہیں منعقد ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے. تاہم دسمبر ۷۶ء تک جو تربیت گاہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئیں ان کی ایک مختصر روداد انجمن کی دس سالہ رپورٹ سے نقل کی جا رہی ہے جسے محترم قاضی عبدالقادر صاحب نے مرتب کیا تھا. 
کراچی (دسمبر۷۲ء)
دسمبر کے آخری ہفتہ میں رباط العلوم اسلامیہ کے ہال میں ایک دس روزہ قرآنی تربیت گاہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے منتخب قرآنی نصاب تسلسل کے ساتھ پیش فرمایا. حاضری توقع سے کہیں زیادہ رہی. مولانا بدیع الزمان صاحب (پیر جھنڈا) نے اس تربیت گاہ میں درسِ حدیث دیا. 

کراچی (دسمبر ۷۳ء)
۲۳ تا ۳۰ دسمبر جمعیت الفلاح ہال کراچی میں ایک آٹھ روزہ قرآنی تربیت گاہ منعقد ہوئی جس میں حسب سابق تین درس روزانہ ہوئے. ایک صبح نماز فجر کے بعد جس میں اربعین نووی کی ابتدائی احادیث کا درس دیا گیا، دوسرا بعد نماز عصر جس میں آخری پارے میں سے سلسلہ وار سورۂ بلد سے سورۂ والتین تک چھ سورتوں کا درس ہوا اور تیسرا بعد نمازِ مغرب جو طویل ترین ہوتا تھا اور جس میں بحمد اللہ پوری سورۂ ھود کے علاوہ سورۂ یونس کے بھی دو رکوع مشتمل بر انباء الرسل بیان کیے گئے. صبح کے درس حدیث میں تو حاضری کم ہی رہتی تھی لیکن شام کے دروس میں حاضری تقریباً تین صد تک رہی اور شرکاء نے حد درجہ ذوق و شوق کا اظہار کیا. 

کراچی (اپریل ۷۴ء)
یہ اقامتی تربیت گاہ شہر کے مضافات میں قریشی کنسٹرکشن کمپنی کی عمارات واقع کورنگی میں یکم تا ۴ اپریل منعقد ہوئی. اس میں کراچی کے رفقاء کے علاوہ لاہور اور حیدر آباد سے بھی کچھ احباب نے شرکت فرمائی. عصر تا عشاء دروس قرآن اور فجر کی نماز کے بعد درس حدیث ہوتا تھا. درس قرآن میں سورۂ علق، سورۂ قلم، اور سورۂ مزمل شامل تھیں. دن میں ڈاکٹر صاحب کے خطابات اور لٹریچر کا مطالعہ ہوتا تھا. خطابات کے موضوع "حقیقت شرک" اور "حقیقت ایمان" تھے. ڈاکٹر صاحب نے "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" کرنے کا اصل کام" کا اجتماعی مطالعہ بھی کرایا. 

لاہور (جولائی ۷۴ء)
ماہنامہ میثاق جون کے شمارہ میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیرِ اہتمام یکم تا ۳۱ جولائی ، دینی تعلیم و تربیت کے ایک ماہی پروگرام کا اعلان کردیا گیا تھا. دینی ذوق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک سنہری موقع اور خصوصاً اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کے لیے تعطیلاتِ گرما کا بہترین مصرف تھا. اس تربیت گاہ کا روزانہ کا پروگرام اس طرح ترتیب دیا گیا تھا: بعد نماز مغرب درس قرآن حکیم از ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جس میں موصوف نے منتخب نصاب کا سلسلہ وار درس دیا. بعد فجر درس حدیث جس میں مشکوۃ المصابیح کے دو اجزا یعنی کتاب الایمان اور کتاب العلم کا مطالعہ ہوتا تھا اور بعد نماز عصر، قواعد لغت عربی کا ایک سبق اور صبح۸ تا ۱۲ بجے باقاعدہ کلاسوں کی صورت میں مطالعۂ کتب مذاکرہ مشق تقریر و خطاب اور تصحیح قراءت و تجوید.

اتوار ۳۰ جون کی صبح کو مسجد شہداء میں تربیت گاہ کی تمہید کے طور پر ایک مفصل تقریر "پاکستان اسلام اور قرآن" کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب نے کی اور اسی شام کو تربیت گاہ کی افتتاحی تقریب سے مولانا عبیداللہ انور رحمہ اللہ تعالی صاحب خلف الرشید مولانا احمد علی لاہوری نے خطاب فرمایا. 

اعلان کے مطابق تربیت گاہ کو پورے ایک ماہ جاری رہنا تھا لیکن موسم کی خرابی، بجلی کی رو کا بار بار منقطع ہوجانا اور بعض دیگر وجوہات اور اصلاً اس وجہ سے کہ ڈاکٹر صاحب کی صحت پہلے عشرہ کے بعد ہی جواب دے گئی پروگرام کو مختصر کرنا پڑا اور بجائے ایک ماہ کے تین ہفتوں پر قناعت کرنی پڑی تاہم ڈاکٹر صاحب نے جیسے بھی بن پڑا اپنے آپ پر شدید سختی کے اختتام پر اتوار ۲۱ جولائی کی شام کو ایک تقریر میں شرکاء و سامعین کے سامنے واضح الفاظ میں یہ سوال بھی رکھ دیا کہ دین کے جو تقاضے اور مطالبے قرآن حکیم کے ان مقامات کی روشنی میں واضح ہوئے ہیں کون ہے جو ان کی ادائیگی کے لیے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو ... چنانچہ اسی کے نتیجے میں مارچ ۷۵ء میں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا. اس لیے کہ اس تربیت گاہ میں ملک کے مختلف شہروں سے احباب خاصی تعداد میں شریک ہوئے تھے. 

کوئٹہ (جولائی ۷۵ء)
اسلامیہ ہائی سکول کوئٹہ کی عمارت میں ۲۳ تا ۳۰ جولائی یہ تربیت گاہ منعقد ہوئی. جس میں کراچی، لاہور اور دیگر مقامات سے شرکاء کے علاوہ کوئٹہ کے شہریوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک رہی. بعد نمازِ فجر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب درس قرآن دیتے تھے، موصوف نے سورۃ حجرات کی آیات ۱۴،۱۵ سورۃ حج کی آخری دو آیات اور پوری سورۃ صف اور مکمل سورۃ جمعہ کا درس دیا. درس حدیث روزانہ بعد نماز عصر مولانا عبدالغفار حسن صاحب دیتے تھے موصوف نے مشکوۃ المصابیح کی کتاب العلم کی پہلی دونوں فصلوں کا درس دیا. دن میں ڈاکٹر صاحب لٹریچر کا مطالعہ کراتے تھے. آخری روز زیارت کا ایک روزہ پکنک کا پروگرام بنا جو در اصل ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ صاحب کے پرزور اور محبت آمیز اصرار کا نتیجہ تھا. 

کراچی (دسمبر ۷۵ء)
شہر کے مرکزی علاقہ میں مدینہ مسجد میں ۲۳ تا ۳۰ دسمبر یہ آٹھ روزہ تربیت گاہ منعقد ہوئی. لاہور سے بھی چند رفقاء شرکت کے لیے تشریف لائے. ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس تربیت گاہ میں سورۃ توبہ کا مکمل درس دیا جسے لوگ نہایت ذوق و شوق سے سننے کے لیے پابندی سے شریک ہوتے رہے. اسی تربیت گاہ میں حیدر آباد (سندھ) کے معروف عالمِ دین اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ حیدر آباد کے ناظم و مہتمم مولانا سید وصی مظہر صاحب ندوی نے چھ روز تک عصر تا مغرب درس حدیث دیا. 

راولپنڈی )اگست ۷۶ء)
ایک آٹھ روزہ تربیت گاہ (۸ اگست تا ۱۵ اگست) راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مری روڈ پر واقع انجمن فیض الاسلام کے یتیم خانہ کی عمارت میں منعقد کی گئی جو دار الشفقت کے نام سے موسوم ہے. یہ تربیت گاہ توقع سے کہیں زیادہ کامیاب رہی اس کے انعقاد میں خالص خدائی تائید و نصرت کار فرما اور اس کا خصوصی فضل شامل حال رہا ورنہ ظاہری اسباب انتہائی نا مساعد تھے. ملک بھر میں بارشوں کا زبردست طوفان بپا تھا. سیلاب کی وجہ سے ریل اور سڑک کے اکثر راستے مسدود ہوگئے تھے اور جو کھلے تھے وہ انتہائی مخدوش تھے. اس کے باوجود بھی راولپنڈی اور اسلام آباد کے سینکڑوں باسیوں کے علاوہ لاہور سے ۳۲، کراچی سے ۱۴، اور سکھر، شیخوپورہ، سرگودھا، گوجرانوالہ، ہری پور ہزارہ اور آزاد کشمیر سے متعدد احباب شریک ہوئے. مقامی خواتین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد پابندی سے شرکت کرتی رہی جن کے لیے پردہ کا معقول انتظام تھا. عصر تا مغرب اور مغرب تا عشاء دو عمومی نشستوں میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ایک طرف اپنے مرتب کردہ قرآنی نصاب کے مطابق درس قرآن دیا تو دوسری جانب "حقیقت و اقسامِ شرک" حقیقت ایمان اور حقیقت نفاق کے موضوعات پر بصیرت افروز تقاریر کیں. قیام الیل کا بھی اجتماعی اہتمام کیا گیا جس میں آٹھ راتوں میں قاری عبدالقادر صاحب نے پورا قرآن کریم ختم کرایا. راولپنڈی کی اس تربیت گاہ سے جہاں شرکاء کے دینی ذوق کو جلا ملی وہاں ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دار الحکومت میں دعوتِ قرآنی کا ایک حلقہ وجود میں آگیا. 

دسمبر ۷۶ء میں انجمن کے مرکزی دفاتر کے قرآن اکیڈمی میں منتقل ہونے کے بعد ہر 
سال پابندی سے مرکزی تربیت گاہ کا انعقاد قرآن اکیڈمی لاہور ہی میں ہوتا رہا. جو عموماً ہر سال اکتوبر یا نومبر کے مہینہ میں منعقد کی جاتی رہیں. ان تربیت گاہوں کا انعقاد تنظیم اسلامی اور انجمن کی مشترکہ مساعی سے کیا جاتا رہا اور اس میں تنظیم اسلامی اور انجمن کے جملہ وابستگان شرکت کرتے رہے. مربی کی حیثیت سے اکثر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب فرائض انجام دیتے رہے. کبھیکبھار کسی تربیت گاہ میں رئیس بلدیہ حیدر آباد (سندھ) مولانا سید وصی مظہر ندوی صاحب کو بھی دعوت دی گئی. ان تربیت گاہوں میں جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں کے تنظیم اسلامی اور انجمن کے وابستگان کو مل بیٹھنے اور باہمی تعارف اور تبادلۂ خیال کا موقع ملتا تھا وہاں صدر مؤسس انجمن اور امیر تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر اسرا احمد صاحب سے قرآن حکیم اور حدیث نبوی کے دروس سے استفادہ اور زندگی کے مختلف مسائل میں قرآن و سنت کی روشنی میں موصوف کا نقطہ نگاہ جاننے کا موقع بھی نصیب ہوجاتا تھا. طوالت مانع ہے ورنہ ان کی تفصیلات بھی ہدیہ قارئین کی جاتیں.