ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی. خبر کا سننا تھا کہ لوگوں کا جم غفیر ڈاکٹر صاحب کے آخری دیدار اور ان کے لواحقین کو دلاسا دینے کے لیے قرآن اکیڈمی لاہورکی طرف لپکا. ڈاکٹر صاحب کا چہرہ دیکھنے والے ہر شخص کا یہ تأثر تھا کہ ڈاکٹر صاحب تو گویا انتہائی پرسکون انداز میں سو رہے ہیں.
امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب نے دیگر لواحقین اور قریبی رفقاء کے ساتھ مشورہ کے بعد طے کیا کہ نمازِ جنازہ بعد نمازِ عصر سنٹرل پارک ماڈل ٹاؤن میں ادا کی جائے گی. لوگوں کا جم غفیر چار بجے شام ہی سے پارک کے ہر گیٹ سے آرہا تھا اور شدید گرمی کے باوجود لوگ انتہائی اطمینان سے صفوں پر بیٹھے نماز عصر کے وقت کا انتظار کررہے تھے. بعض اہم حکومتی شخصیات کی آمد کے پیش نظر سکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے گئے تھے ماڈل ٹاؤن پارک کے ہر گیٹ پر واک تھرو گیٹ نصب اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور جنازہ کے روٹ پر جگہ جگہ پولیس کا پہرہ تھا، تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو نے پائے. تاہم ہجوم کے سیل رواں کے باعث پارک کی طرف آنے والی تمام سڑکوں پر ٹریفک جام تھا. لوگ اپنی گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر جنازے میں شرکت کی خاطر پارک کی طرف دوڑتے نظر آ رہے تھے. دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد اپنی DSNG vans کے ہمراہ جنازے کے منظر کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے موجود تھی. اسی طرح پرنٹ میڈیا کے نمائندے بھی اپنے اپنے اخبار کی رپورٹنگ اور فوٹو گرافر کوریج کے لیے جمع تھے.
ٹھیک پانچ بجے جونہی ایمبولینس ڈاکٹر صاحب کی میت کو لے کر پارک کے گیٹ سے داخل ہوئی تو نظم و ضبط کے تمام بند ٹوٹ گئے اور عوام کا جم غفیر زارو قطار روتا ہوا اس خادم قرآن کی میت کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ایمبولینس کی طرف لپکا. رفقاء تنظیم اسلامی اور سیکیورٹی پر مامور پولیس نے جان توڑ کوشش کے بعد میت کو نماز جنازہ کے لیے مقررہ جگہ پر پہنچایا. حافظ عاکف سعید صاحب نے نماز عصر کی امامت فرمائی اور اس کے بعد اپنے مختصر خطاب میں لوگوں کو صبر کی تلقین اور محترم ڈاکٹر صاحب کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم دہرایا. تقریباً ساڑھے پانچ بجے حافظ صاحب نے محترم ڈاکٹر صاحب ؒ کی نماز جنازہ پڑھائی.
نمازِ جنازہ کے وقت ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل بجھا ہوا تھا. اس موقع پر ماڈل ٹائون پارک اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگی داماں کا منظر پیش کررہا تھا. حاضرین کی تعداد کا شمار ممکن نہ تھا. زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے حضرات کا جم غفیر موجود تھا. جنازہ میں شرکت کرنے والے نمایاں لوگوں میں مولانا سمیع الحق، حافظ حسین احمد،مولانارفیع عثمانی، مولانا فضل الرحیم، مولانا زاہد الراشدی، حافظ عبد الرحمن مکی،سید منور حسن، قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ، حافظ ادریس احمد،فرید احمدپراچہ، حافظ محمد سعید، حنیف جالندھری، مولانا عبد الرئوف، مولانا طاہر اشرفی، مجیب الرحمن انقلابی، سہیل ضیاء بٹ، ذوالفقار کھوسہ، میاں عامر محمود، مجید نظامی، مجیب الرحمن شامی، انجینئر سلیم اللہ، اوریا مقبول جان، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف، حافظ زبیر احمد ظہیر، سیف اللہ منصور، یحییٰ مجاہد مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نصیر احمد بھٹہ، حافظ نعمان، صوبائی وزراء چودھری عبد الغفور اور علی احمد اولکھ شامل تھے.
طے یہ کیا گیا تھا کہ نماز جنازہ کے بعد میت آخری دیدار کے لیے رکھی جائے گی، لیکن عوامی جذبات ہمارے کارکنوں اور سکیورٹی حکام کے کنٹرول سے باہر ہورہے تھے. کوئی چارپائی کو چوم رہا تھا تو کوئی چہرہ دیکھنے کو ترس رہا تھا. دھکم پیل کے سبب بزرگ حضرات گر رہے تھے. بے انتہا رش اور جذبات سے مغلوب بے قابو ہجوم کی وجہ سے میت کی بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر نہ چاہتے ہوئے بھی ہنگامی طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس وقت یہاں آخری دیدار نہ کروایا جائے. لہٰذا ڈاکٹر صاحب کے جسدخاکی کو بڑی مشکل سے ایمبولینس تک پہنچایا گیا، اور تدفین کے لیے سفر آخرت شروع ہوا. قبرستان چونکہ کچھ فاصلے پر تھا، لہٰذا یہ سفر بھی بہت بڑے جلوس کا منظر پیش کررہا تھا. آذانِ مغرب سے ذرا پہلے قرآن اکیڈمی کے قریب قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو لحد میں اتارا گیا.قبر کو دیکھ کر کیفیت یہ ہورہی تھی کہ ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟
اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وحاسبہ حساباً یسیرًا