۵۸.۱۹۵۷ء کے دوران میں مولانا مودودی مرحوم کے جن قریب ترین رفقاء نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی تھی، اُن میں اُن چاروں حضرات کے علاوہ جنہیں مولانا مرحوم کی نظربندی کے دوران مختلف مواقع پر امارت جماعت کی ذمہ داری تفویض کی جاتی رہی تھی (۱) جماعت کی قیادت کی صف دوم کا بہت بڑا حصہ شامل تھا، اُن میں سے بعض حضرات تو اس درجہ مایوس اور دل شکستہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے نئی تشکیل و تعمیر کی کسی کوشش میں قطعاً کوئی حصہ نہ لیا ( جیسے مولانا عبدالجبار غازی مرحوم اور جناب سعید احمد ملک صاحب) لیکن بقیہ اکابرین میں سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، مولانا عبدالغفار حسنؒ اور حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے بھرپور کوشش کی کہ کوئی نئی ہیئت تنظیمی فوری طور پر وجود میں آجائے. ان کی اس کوشش میں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے اُن عام ارکان کی اکثریت بھی شریک تھی جو معتدبہ تعداد میں لاہور، لائلپور (حال فیصل آباد) اور منٹگمری (حال ساہیوال) سے تعلق رکھتے تھے.
لیکن افسوس کہ مختلف اسباب کی بناء پر یہ مساعی ناکام رہیں، اور جماعت کے سابق ارکان پر مشتمل کوئی نئی اجتماعیت وجود میں نہ آسکی، جس کے نتیجے میں ایک عمومی مایوسی اور بددلی اس پورے حلقے میں پھیل گئی.
واضح رہے کہ اگرچہ ان جملہ مساعی میں راقم الحروف بھی ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شامل رہا تھا، تاہم ایک طویل عرصے تک ان کا اصل اعصابی مرکز بھی لائلپور رہا تھا، اور اُن کی روح رواں کی حیثیت بھی حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب ہی کو حاصل رہی تھی. البتہ کچھ عرصہ بعد جب محسوس ہوا کہ حکیم صاحب موصوف کچھ زیادہ ہی مایوس اور بددل ہوگئے ہیں، تو راقم نے ذاتی تحریک اور منٹگمری کے احباب کے تعاون سے ایک بھرپور مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا جو عزیز ٹینریز، ہڑپہ میں منعقد ہوا اور کئی روز تک جاری رہا. لیکن افسوس کہ یہ کوشش بھی ناکام رہی. نتیجتاً مایوسی کے سائے مزید گہرے ہوگئے اور ۶۱.۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جماعت سے علیحدہ ہونے والے اکابر اور عام ارکان کے حلقے (۱) یعنی مولانا عبدالجبار غازیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، مولانا عبدالغفار حسنؒ اور شیخ سلطان احم د میں کسی نئی تعمیر و تشکیل کے ضمن میں کسی عملی سعی و جہد تو کجا، مستقبل قریب میں اس کی کسی اُمید کے آثار بھی باقی نہ رہے، اور بالعموم وہ فضا طاری ہوگئی جس کا نقشہ ان الفاظ میں سامنے آتا ہے کہ ؏ ’’اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا!‘‘ اگرچہ بحمد اﷲ اس وقت بھی ذاتی طور پر راقم کے قلبی احساسات کی کیفیت یہ تھی کہ ؏ ’’آگ بھجی ہوئی نہ جان، آگ دبی ہوئی سمجھ!‘‘
راقم الحروف اوائل ۶۲ء سے اواخر ۶۵ء تک بعض خاندانی مسائل کی بناء پر کراچی میں مقیم رہا اور اس اثناء میں مولانا عبدالغفار حسنؒ بھی مدینہ منور منتقل ہوگئے، جہاں اُن کا تقرر جامعہ اسلامیہ میں بحیثیت استاذِ حدیث ہوگیا تھا.
اواخر ۱۹۶۵ء میں راقم تعمیر جدید اور تشکیل نو کے عزم تازہ کے ساتھ لاہور منتقل ہوا تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا وہ اختلافی بیان جو اُس نے ۱۹۵۶ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی مقرر کردہ جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع کردیا، جو دینی حلقوں اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ اخبارات و جرائد میں بھی شدّ و مدّ کے ساتھ زیرِ بحث آیا، جس کے نتیجے میں،سابقینِ جماعت کے حلقے میں بھی کسی نئی تعمیر و تشکیل کی خواہش ازسر نو انگڑائی لینے لگی. چنانچہ ۱۹۶۶ء میں جب مولانا عبدالغفار حسنؒ اپنی سالانہ تعطیلات پر پاکستان آئے تو انہوں نے راقم کے ساتھ کامل اتفاق کرتے ہوئے نہ صرف کراچی اور لاہور بلکہ بعض دوسرے مقامات پر بھی سابق ارکان جماعت کو ایک نئی تنظیم کے قیام پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اُن کی ان مساعی کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں قیام اجتماعیت کی وہ چنگاری جو خاکستر کی موٹی تہہ میں دب چکی تھی دوبارہ پورے آب و تاب کے ساتھ بھڑک اُٹھی.
مولانا موصوف تو اپنی تعطیلات کے اختتام پر واپس مدینہ منورہ چلے گئے. لیکن اُن کی غیر حاضری میں شیخ سلطان احمد صاحب نے اُن کی نیابت کا حق بخوبی ادا کیا- اور نہ صرف مفصل خط و کتابت کے ذریعے بلکہ اپنی شدید خانگی اور کاروباری مصروفیات کے علی الرغم ایک رفیق کی معیت میں پاکستان کے متعدد اہم مقامات کے سفر کی صعوبت جھیل کر اس تحریک کے پودے کو پروان چڑھایا . نتیجتاً جون ۱۹۶۷ء میں آں محترم اور یہ خاکسار رحیم آباد ضلع رحیم یار خاں میں سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم کے دولت کدے پر جمع ہوئے، جہاں طویل گفت و شنید اور بحث و تمحیص کے بعد ہم تینوں نے ایک قرار داد پر دستخط ثبت کردیئے جو جولائی ۱۹۶۷ء کے میثاق میں قرار داد رحیم آباد کے نام سے شائع ہوگئی.
اس قرار داد کا اکثر و بیشتر حصہ تو وہی ہے جو تنظیم اسلامی کی قرار داد تاسیس کے عنوان سے اس فصل میںدرج ہے. البتہ اُس کے پہلے پیراگراف کی بجائے ’’قرار داد رحیم آباد میں حسب ذیل عبارت درج تھی:
’’ہم اس امر پر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہماری راہ کے موانع کو دور فرمایا اور حالات کو اس طرح ساز گار فرمایا کہ ہم ایک بار پھر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے ایک مقام پر جمع ہوسکے.
ہمارے نزدیک یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم اور انعام و احسان ہے کہ گفت و شنید کے نتیجہ میں ہم نے محسوس کیا کہ بحمد اﷲ ہمارے نقطہ نظر اور طرز فکر میں بہت حد تک یکسانی و یک رنگی موجود ہے اور ہم دین کی کسی چھوٹی یا بڑی خدمت کے لئے جمع ہوکر سعی و جہد کرسکتے ہیں.
بنابریں ہم یہ طے کرتے ہیں کہ ایک ایسی اجتماعیت کا قیام عمل میں لایا جائے جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو. جس میں وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے لیکن پھر مختلف مراحل پر اس سے مایوس ہوکر علیحدہ ہوتے چلے گئے اور اب کسی ہیئت اجتماعی میں منسلک نہ ہونے کی بناء پر تشنگی محسوس کررہے ہیں اور وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جنہیں اپنے دینی فرائض کا احساس ہوجائے اور وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے کسی اجتماعی نظم میں منسلک ہونا چاہیں.‘‘
اور اختتام پر ان الفاظ کا اضافہ تھا:
’’مندرجہ بالا رہنما اصولوں کی روشنی میں تفصیلی نقشہ کار کی تعیین اور ایک ہیئت اجتماعی کی تشکیل کے لئے طے کیا جاتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، ہم خیال لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور پھر کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے کہ ایسے لوگ ایک جگہ جمع ہوکر کسی اجتماعیت کے قیام کی عملی صورت اختیار کرلیں.اس کام کی انجام دہی کے لئے فی الحال شیخ سلطان احمد (صاحب) کو مامور کیا جاتا ہے.‘‘
واضح رہے کہ اس قرار داد کو بھی الفاظ کا جامہ راقم الحروف ہی نے پہنایا تھا اور پھر جب راقم نے لاہور واپس آکر اسے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی خدمت میں پیش کیا اور اُن کی جانب سے اس کی بحیثیت مجموعی تائید و تحسین کے بعد طے کیا گیا کہ اس کی ایک مختصر وضاحت بھی ضبط تحریر میں لے آئی جائے تو یہ خدمت بھی راقم ہی نے سرانجام دی .دریں اثناء لاہور میں منعقدہ ایک اجتماع میں مجوزہ اجتماعیت کے ضمن میں ایک مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آچکا تھا جس کے ایک اجلاس میں نہ صرف ’’قرار داد رحیم آباد‘‘ بلکہ متذکرہ بالا توضیحات کو بھی معمولی حکّ و اضافے کے ساتھ منظور کرلیا گیا. چنانچہ، میثاق ، بابت اگست۱۹۶۷ء میں یہ تمام چیزیں ’’مجلس مشاورت‘‘ کی جانب سے شائع ہوگئیں اور اُن کی اساس پر ایک اجتماع ۸.۹ء ستمبر کو بمقام رحیم یار خان طلب کرلیا گیا.
رحیم یار خان میں ۶.۷ستمبر کو مجلس مشاورت کا اجتماع ہوا … اور بعد ازاں ۸.۹ ستمبر کو کھلے اجلاس ہوئے جن میں اولاً راقم ہی نے مجوزہ قرار داد اور اس کی توضیحات پڑھ کر سنائیں. پھر مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا عبدالغفار حسنؒ نے مزید تائیدی اور توضیحی تقریریں کیں. شرکاء اجتماع کی جانب سے بعض لفظی ترامیم بھی پیش ہوئیں … اور بالآخر قرار داد کو مع توضیحات منظور کرلیا گیا. صرف اس فرق کے ساتھ کہ قرار داد رحیم آباد کے ان ابتدائی تین پیروں کی بجائے، جو اوپر نقل ہوچکے ہیں، یہ پیرا شامل کیا گیا:
’’آج ہم اﷲ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو.‘‘
اور اسی طرح قرار داد رحیم آباد کے محولہ بالا آخری الفاظ درج کئے گئے کہ:
’’مندرجہ بالا رہنما اصولوں کی روشنی میں عملی جدوجہد کے آغاز اور ایک ہیئت اجتماعی کی باقاعدہ تشکیل کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل ایک مجلس مشاورت کے تقرر کی توثیق کی جاتی ہے.‘‘
۱.مولانا امین احسن اصلاحی ۲. مولانا عبدالغفار حسن
۳. مولانا عبدالحق جامعی ۴. شیخ سلطان احمد (معتمد)
۵. سردار محمد اجمل خان لغاری ۶. ڈاکٹر محمد نذیر مسلم
اور .۷ ڈاکٹر اسرار احمد
’میثاق‘ کی ستمبر اکتوبر ۱۹۶۷ء کی مشترکہ اشاعت میں ترمیم شدہ قرار داداور توضیحات بھی شائع کردی گئیں اور مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کی تقاریر بھی مزید برآں صرف قرارداد اور اس کی توضیحات کو ’’ایک نئی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچے کی صورت میں بھی شائع کردیا گیا تاکہ اسے زیادہ وسیع حلقے تک پہنچایا جاسکے.
یہ عرض کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ اگرچہ اس نئی تنظیم کی سربراہی یا امارت کے لئے تاحال رسمی طور پر کسی کا نام نہ تجویز ہوا تھا نہ منظور‘ لیکن اس ’’بارات کے دولہا‘‘ بہرحال مولانا امین احسن اصلاحیؒ ہی تھے… اور اگرچہ اس نئی ہیئت اجتماعی کے نام کے بارے میں بھی متعدد تجاویز کے پیش ہونے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا، تاہم چونکہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام پر مُصر تھے، لہٰذا غیر رسمی طور پر یہ نام بھی تقریباً طے شدہ ہی تھا. اگرچہ راقم الحروف نے یہ احتیاط ملحوظ رکھی تھی کہ یہ اسم عَلَم نہ ’میثاق‘میں استعمال ہوا نہ متذکرہ بالا کتابچے میں.
اجتماع رحیم یار خان میں اپنے الوداعی خطاب میں بھی مولانا اصلاحیؒ نے اپنی سابقہ تقصیر کے اعتراف کے ساتھ آئندہ کے لئے عزم مصمّم کا اظہار کیا تھا اور اس کے بعد بھی چند ماہ تک ان کی طبیعت میں نشاط کی کیفیت برقرار رہی اور ؏ ’’ ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘ کے سے انبساط و انشراح کا اظہار ہوتا رہا. چنانچہ بعض چھوٹے اسفار کے علاوہ ایک طویل سفر بھی انہوں نے ازلاہور تا سکھر بذریعہ کار اور وہاں سے کراچی بذریعہ ریل کیا جس میں راقم بھی حضرت موسیٰ کے فتیٰ کے مانند اُن کے ساتھ رہا.
لیکن افسوس کہ ایک حادثہ تو اس سفر کے دوران سکھر میں ایک اجتماع عام کے موقع پر پیش آگیا… اور بعض دوسرے حوادث اس کے کچھ عرصہ بعد رونما ہوگئے جن کے نتیجے میں ایک جانب تو مولانا اصلاحی کی طبیعت بجھ کر رہ گئی… اور دوسری جانب بعض اہم رفقاء کے مزاج میں بھی تکدّر پیدا ہوگیا… چنانچہ جماعت اسلامی کے ساتھ سابق تعلق کی قدرِ مشترک کی اساس پر نئی تنظیم کے قیام کی یہ آخری کوشش بھی ؏ ’’خوش درخشیدولے شعلۂ مستعجل بود،‘‘ کی مصداق کامل بن گئی!
تاہم راقم الحروف نے اُسی وقت طے کرلیا تھا کہ اقامت دین اور اعلاء کلمۃ اﷲ کے بلند و بالا مقاصد کے لئے خالص اصولی اور انقلابی طریق پر جدوجہد، یا بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب کی سعی کے لئے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر کسی نئی تحریک کے اجراء اور تنظیم کے قیام کے لئے خود اپنی بساط کے مطابق کوشش جاری رکھے گا. خواہ اُسے نئے سفر اور نئی تعمیر و تشکیل کے لئے تنہا ہی آغاز کرنا پڑے.
لاہور میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن اور ’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘‘ کا قیام اور ماہنامہ میثاق کا دوبارہ اجراء پہلے ہی عمل میں آچکا تھا. چنانچہ قرآن حکیم کے انقلابی فکر اور ولولہ انگیز دعوت کی اساس پر ہم خیال لوگوں کا ایک بالکل نیا حلقہ وجود میں آچکا تھا جو فطری تدریج کے ساتھ مسلسل ترقی کررہا تھا. چنانچہ اب راقم نے اپنے جسم و جان کی تمام توانائیوں کو بالکل یکسو ہوکر اور ؏ ’’شرط اوّل قدم این است کہ مجنوں باشی‘‘ کے سے انداز میں قرآن کی انقلابی دعوت کے نشرواشاعت پر مرکوز کردیا. (۱) جس کے نتیجے میں اولاً ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا اور۲۱؍جولائی۱۹۷۴ء کی شام کو اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر راقم نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ آئندہ معاملہ صرف قرآن کے درس و تدریس اور تعلیم و تعلم تک محدود نہیں رہے گا اور صرف ’’انجمن‘‘ پر اکتفا نہیں ہوگی بلکہ اقامت دین کی اجتماعی جدوجہد کے لئے ایک باضابطہ ٔ جماعت کا قیام عمل میں لایا جائے گا.
راقم الحروف کی متذکرہ بالا تقریر، تسوید و تبییض کے جملہ مراحل طے کرکے بعض اضافوں کے ساتھ کچھ ’’میثاق‘‘ بابت ستمبر ۱۹۷۴ء میں اور بقیہ اکتوبر اور نومبر کی مشترک اشاعت میں شائع ہوگئی جس کے ذریعے راقم نے اپنا ذہنی و فکری پس منظر، سابقہ تحریکی و جماعتی تعلق اور فرائض دینی کے بارے میں اپنا تصور پوری طرح واضح کردیا.
پھر’میثاق‘ بابت اکتوبر نومبر میں راقم نے ایک جانب ایک طویل مقالے کے ذریعے امّتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران عروج اور زوال کے دو دو ادوار کی وضاحت اور تیسرے عروج کی جانب پیش قدمی کے ضمن میں ’’ہمہ جہتی اور احیائی عمل‘‘کے مختلف گوشوں کی تعیین کے ساتھ یہ بات بھی واضح کردی کہ راقم اور اُس کی تجویز کردہ تنظیم اُن میں سے کون سے گوشے سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری جانب ۱۹۶۷ء کے اجتماع رحیم آباد کی منظور کردہ قرار داد مع توضیحات بھی شائع کردی اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا عبدالغفار حسنؒ کی تقاریر کے علاوہ وہ تائیدی تبصرے بھی شائع کردیئے جو ۶۸.۶۷ء میں مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا عبدالباری ندویؒ نے کیے تھے… اور اعلان کردیا کہ ان ہی فکری و نظری اساسات پر ایک نئی تنظیم کی تشکیل اگلے سال (۱۹۷۵ء) کے اوائل میں ہوجائے گی!
(۱) اس کی تفصیلی روداد کے لئے ملاحظہ ہو راقم کی تالیف ’’دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر!‘‘ ۱۹۶۷ء کی قرارداد کے بارے میں راقم الحروف کو اس وقت بھی یہ احساس تھا کہ اس میں اقامت دین کی فرضیت کا تصور کچھ دب گیا ہے اور اس کی اہمیت کما حقہ، واضح نہیں ہورہی… اور اگرچہ دین کی اقامت کی اصطلاح اس میں موجود ہے تاہم بحیثیت مجموعی اُس سے اصلاً ایک تبلیغی اور اصلاحی تحریک کا نقشہ سامنے آتا ہے.
اس کا اصل سبب بھی راقم کے سامنے واضح تھا، یعنی یہ کہ جماعت اسلامی کی تحریک کی قلب ماہیت اور ایک اسلامی انقلابی جماعت کے بجائے اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کا انداز اختیار کرلینے اور اس کے نتیجے میں اُس کے کارکنوں کے مزاج میں سیاسی رنگ کے غلبے نے سابقین جماعت کے حلقے میں ردّعمل کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے! ‘‘… اور ’’سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے!‘‘ کے مطابق ’’انقلاب کے لفظ سے وحشت (Allergy) پیدا کردی تھی… اس کے باوجود راقم نے نئی تشکیل کے لئے قرار دادِ تاسیس کے طور پر اُسی کو اختیار کیا. اس لئے کہ ایک تو اس کی شدید خواہش تھی کہ ۱۹۶۷ء میں جمع ہونے والے تمام بزرگ اور احباب اس میںشمولیت اختیار کرلیں اور اس ضمن میں اُن پر یہ حجت قائم ہوجائے کہ نئے سفر کا آغاز ٹھیک اسی مقام سے کیا جارہا ہے جہاں سے سات سال قبل قافلہ منتشر ہوا تھا… اور دوسرے اسے یقین تھا کہ جیسے ہی قافلہ مصروف سفر ہوگاسابقہ تجربات اور ایک طویل عرصے کے جمود کے باعث جو وحشت پیدا ہوگئی ہے خود بخود رفع ہوجائے گی اور … ؏ ’’پھر دلوں کو یاد آجائے کا پیغام سجود!‘‘ کے مصداق سب بھولے ہوئے سبق دوبارہ یاد آجائیں گے. (جس کا ایک ثبوت بھی راقم کو بالکل ابتدائی مرحلے ہی پر مل گیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم کے مزاج میں متذکرہ بالا وحشت کی شدت کے باعث قرار داد رحیم آباد میں ان الفاظ کے بعد کہ: ’’لہٰذا پیش نظر اجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں فرد کی دینی اور اخلاقی تربیت کا کما حقہ، لحاظ رکھا جائے!‘‘ مزید تاکید اور حزم و اختیار کے لئے یہ الفاظ بھی شامل تھے کہ ’’اور اُسے محض کسی اجتماعی انقلاب کے لئے آلہ کار کی حیثیت نہ دے دی جائے!‘‘… لیکن جیسے ہی جمود ٹوٹا اور حرکت کا آغاز ہوا تو اس وحشت کی شدت میں فوراً کمی آگئی. چنانچہ رحیم یار خان میں منظور ہونے والی قرار داد سے یہ الفاظ حذف کردیئے گئے.
تنظیم اسلامی کا تاسیسی اجلاس ۲۷؍ اور ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے دفتر واقع ۱۲. اے، افغانی روڈ، سمن آباد لاہور میں منعقد ہوا. جس میں لاہور کے علاوہ کراچی ، سکھر، بہاولپور، ساہیوال، فیصل آباد، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور بعض دوسرے مقامات سے کُل ایک سو تین (۱۰۳) افراد شریک ہوئے.
ان میں اوّل تو جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے حضرات کی کل تعداد بھی پانچ چھ سے زیادہ نہ تھی، مزید برآں وہ سب بھی جماعت کے عام ارکان میں سے تھے، اور اُن میں سے کوئی بھی جماعتِ اسلامی میں کبھی کسی منصب پر فائز نہیں رہا تھا___ (سوائے شیخ جمیل الرحمن صاحب کے کہ وہ کراچی کی جماعت کے معروف اور نمایاں لوگوں میں شامل رہے تھے!) ______ گویا یہ پورا قافلہ راقم کی دعوتِ قرآنی کے نتیجے میں عالمِ وجود میں آیا تھا اور اس کے جملہ اساسی تصورات مطالعۂ قرآن حکیم کے اُس منتخب نصاب پر مبنی تھے جسے راقم نے اپنی دعوتِ قرآنی کا مرکز و محور بنایا تھا.
چنانچہ راقم نے اس اجلاس کی افتتاحی نشست میں بھی ایک بار پھر اپنے مطالعۂ قرآن کا نچوڑ پیش کیا اور سورۃ الصف کے دوسرے رکوع اور سورۃ الحجرات کی آیات ۱۴.۱۵ کے حوالے سے فرائضِ دینی کا جامع تصور اور اس کے ضمن میں شہادت علی الناس اور غلبۂ اقامتِ دین کی جدوجہد کی فرضیت اور اس کے لئے التزام جماعت کی اہمیت پر زور دیا. اس کے ساتھ ہی راقم نے ۶۷ء والی قراردادِ تاسیس مع توضیحات پڑھ کر سنائی اور اس کی پُرزور وکالت کی، صرف اس لئے نہیں کہ یہ اس کے اپنے رشحاتِ قلم تھے، بلکہ اس لئے کہ اقامتِ دین کے بلند و بالا مقصد کے لئے جو مردانِ کار درکار ہیں اُن کی فراہمی اور سیرت سازی کے لئے جو پروگرام اُس قرارداد اور اُس کی توضیحات کے ذریعے سامنے آتا ہے اُس کی صحت و حقانیت پر میرا دل ۷۵.۱۹۷۴ءمیں بھی اتنا مطمئن تھا، جتنا۶۷.۱۹۶۶ء میں. اور الحمد للہ کہ ان سطور کی تحریر کے وقت بھی (جنوری ۱۹۹۱ء ) راقم کو یقینِ کامل حاصل ہے کہ فرائضِ دینی کی پہلی دو منزلوں یعنی بندگی رب اور شہادت علی الناس کے اُصول و مبادی کے ضمن میں اس قرارداد اور اس کی توضیحات کو ایک اہم اور جامع دستاویز کی حیثیت حاصل ہے. (چنانچہ اس کتاب کا حصہ اول اسی قراداد اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے.)_____ بہر حال چونکہ یہ اجتماع اِن ہی کی اساس پر طلب کیا گیا تھا لہٰذا اس کا کوئی امکان ہی موجود نہ تھا کہ ان کے کسی نکتے سے شرکاء اجلاس میں سے کسی کو کوئی اختلاف ہو. لہٰذا اِن کی منظوری کا مرحلہ بآسانی طے ہو گیا. اگلا مرحلہ ،نام ، شرائطِ شمولیت، ہیئت تنظیمی، اور قواعد و ضوابط کی منظوری تھاجن میں سے نہ نام کے سلسلے میں کوئی ردّ و قدح ہوئی، نہ ہیئتِ تنظیمی ، اور قواعد و ضوابط کے ضمن میں کوئی مشکل پیش آئی. البتہ شرائطِ شمولیت میں شامل بعض کڑوی گولیوں کا نگلنا موجود الوقت حالات میں بہت سے احباب کو دشوار ہی نہیں محال نظر آیا.چنانچہ نام کے ضمن میں اتفاق رائے کے ساتھ ’’تنظیم اسلامی‘‘ہی کے حق میں فیصلہ ہو گیا. اور اُس وقت کے دستورِ تنظیمِ اسلامی کی دفعہ ’’۱.‘‘ قرار پائی:
’’اس تنظیم کا نام ’تنظیم اسلامی‘ ہو گا.‘‘
اسی طرح ہیئت تنظیمی کے ضمن میں حسبِ ذیل اُمور بھی بالاتفاق طے پا گئے: