روداد منتقلیٔ امارت

باب 4
روداد منتقلیٔ امارت 

۱۶ ؍ ستمبر۲۰۰۲ء کو بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تنظیم اسلامی کی امارت سے اپنی پیرانہ سالی اور بعض عوارض کی وجہ سے استعفیٰ دیا اور اُن کی جگہ محترم جناب حافظ عاکف سعید s منصب امارت پر فائز ہوئے، جنہیں اس سے قبل ایک وسیع مشاورت کے بعد آئندہ کے لئے جانشین مقرر کیا جاچکا تھا. گویا اس طرح تنظیم اسلامی کی تاریخ کے دور ثانی کا آغاز ہوتا ہے. چنانچہ اس اہمیت کے پیش نظر امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب کی بطور امیر نامزدگی کی روداد خود بانیٔ محترمؒ کے قلم سے یہاں پیش کی جارہی ہے. یہ تحریر محترم ڈاکٹر صاحبؒ کے ذاتی کوائف پر مبنی کتاب ’’حساب کم وبیش‘‘ سے مأخوذ ہے. (مرتب)


عزیزم حافظ عاکف سعید سلمہ ٗ کی بطور امیر تنظیم اسلامی نامزدگی کوئی اچانک پیش آنے والا حادثہ یعنی 
"BOLT FROM THE BLUE" نہیں تھا بلکہ اس ’’قطرے کو گہر ہونے تک‘‘ پورے چار سال کا عرصہ لگا. جس کے دوران ’’وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘‘ (اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں)کے جملہ تقاضے ادا کئے گئے! اس سلسلے میں حسب ذیل نکات پیش نظر رہنے چاہئیں:

(۱) تنظیم کے دستور العمل میں اوّل یوم سے یہ طے ہے کہ: 
’’امیر تنظیم کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ کسی مجبوری یا معذوری کی بناء پر اپنے منصب سے دست بردار ہونے کی صورت میں اپنا جانشین نامزد کریں. بصورتِ دیگر ان کی وفات پر نئے امیر تنظیم کا انتخاب مرکزی مجلس مشاورت سات دن کے اندر اتفاق رائے یا اختلاف کی صورت میں کثرت رائے سے کرے گی…‘‘

(۲) تاہم ا س سلسلے میں ’’مشاورت‘‘ کا سلسلہ ۹۴ء سے شروع ہوا جبکہ مرکزی مجلس مشاورت کے اجلاس منعقدہ ۷.۸ ؍فروری میں اس موضوع پر بحث ہوئی کہ آیا میںاپنے بعد کے لئے اپنا جانشین نامزد کر دوں!(جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا)یا اسے رفقاء پر چھوڑ دوں کہ وہ خود اپنی صوابدید سے فیصلہ کریں (جیسے کہ نبی اکرم نے کیا تھا!) طویل بحث مباحثے کے بعد رائے شماری ہوئی تو جدید اصطلاح میں 
HUNG PARLIAMENT والی صورت حال پیدا ہو گئی کہ ۱۳؍ارکان کی رائے نامزدگی کے حق میں تھی اور اتنے ہی ارکان معاملے کو OPEN رکھنے کے حق میں تھے (بعد ازاں ۸.۹؍جون کی مشاورت میں ایک اور معزز رکن شوریٰ نے نوٹ کرایا کہ ان کی رائے گنتی میں آنے سے رہ گئی تھی ان کی رائے بھی OPEN رکھنے کے حق میں ہے. گویا اب معاملہ 14 vs13 کا ہو گیا‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی فیصلہ کن صورت نہیں تھی!)

(۳) چنانچہ تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع ‘ منعقدہ اکتوبر ۱۹۹۴ء کے موقع پر میںنے اعلان کیا تھا کہ میرے بعد تنظیم کی امارت کے مسئلے کے ضمن میں جو دو متبادل صورتیں ہمارے نظام العمل میں درج ہیں ان میں سے کسی ایک کے بارے میں حتمی فیصلے کے لئے رفقاء سے مشورے کے لئے تنظیم کے ملتزم رفقاء کا ایک کُل تنظیم خصوصی اجتماع اپریل ۱۹۹۵ء میں منعقد ہو گا. 

(۴) چنانچہ تنظیم اسلامی کا آل پاکستان اجتماع ملتزم رفقاء ۲ تا ۴؍اپریل ۹۵ء لاہور میں منعقد ہوا. اس میں مشورہ طلب امور کے تعین کے لئے میں نے ایک مکتوب جملہ ملتزم رفقاء کو ۲۱؍مارچ ۹۵ء کو ارسال کیا ‘جس میں وضاحت کی کہ:

چند روز قبل جبکہ بفضلہ تعالیٰ امید واثق ہو گئی کہ یہ اجتماع حسبِ منشا منعقد ہو ہی جائے گا تو میرے ذہن نے اس سے بھرپور استفادہ کے لئے ترتیب مباحث پر غور کیا تو میں حسب ذیل نتائج تک پہنچا ہوں :

میرے بعد کے دور کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں نظام بیعت پر بھرپور نظر ثانی کر لینی چاہئے. تاکہ (i)اگر کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو اس کا فیصلہ کر لیا جائے. ورنہ (ii)اگر بعض حضرات کے ذہنوں میں کوئی اشکال ہو تو وہ رفع ہو جائے. اور ہم اسے زیادہ نئے اور زیادہ بھرپور انشراح صدر کے ساتھ جاری رکھ سکیں.
اس ضمن میں حسب ذیل دو باتیں میری جانب سے پیش نظر رہیں:

ایک یہ کہ اگرچہ میرے نزدیک اقامت دین کی جدوجہد کے لئے قائم ہونے والی جماعت کے لئے واحد منصوص‘ مسنون اور ماثور اساس صرف شخصی بیعت ہی کی ہے ‘ تاہم میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ مغربی طرز کی دستوری تنظیم کو بھی میں حرام یا ممنوع نہیں بلکہ ’’مباح‘‘ سمجھتا ہوں.

دوسرے یہ کہ نظام بیعت کے لئے کتاب و سنت اور سیرت و تاریخ سے مطابقت پر مستزاد جو عقلی استدلال ہے اس کا بھی ایک جزو تو مستقل اور ابدی ہے یعنی یہ کہ انقلابی جدوجہد کے آخری یعنی اقدامی مرحلے کے لئے اس طرز کا نظم قطعاً ناگزیر ہے اور اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ طبائع کو پہلے ہی سے اس کا خوگر بنا دیا جائے … لیکن ایک جزو صرف داعی ٔ اوّل اور مؤسس تنظیم کی ذات سے متعلق ہوتا ہے‘ یعنی یہ کہ کسی بھی دعوت و تحریک کا داعی ہی اس کے جملہ مضمرات اور مقدرات کو بہتر طور پر جانتا ہے اور چونکہ تنظیم اور جماعت کی پوری تعمیر میں ایک ایک اینٹ اسی کے ہاتھ کی رکھی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اس کی ذات میں 
’’اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ‘‘ (بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟)کا عکس اور ’’صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْرٰی بِمَا فِیْھَا‘‘ (گھر کا مالک جانتا ہے کہ جو کچھ گھر میں ہے)کی کیفیت موجود ہوتی ہے‘لیکن یہ دلیل اس کے بعد کسی دوسرے شخص کے حق میں موجود نہیں ہوتی ‘اس لئے کہ وہ سب لوگ جو اس داعی کی دعوت پر جمع ہوتے ہیں اس اعتبار سے کم وبیش مساوی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں. (یہی وجہ ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور میں بھی میں نے اپنے لئے تو ’’حق استرداد‘‘ (VETO) رکھا تھا‘ لیکن میرے بعد کسی صدر انجمن کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا.)

بنا بریں اس مسئلے پر غورکر لینے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے!…!
لیکن اگر نئے انشراح صدر کے ساتھ بیعت ہی کے نظام کو جاری رکھنے کا فیصلہ ہو تو پھر مجھے ذاتی طور پر دو مشورے درکار ہوں گے:

ایک یہ کہ آیا میں نظام العمل کے مطابق اپنا جانشین نامزد کر دوں یا اسے مجلس مشاورت ہی کے لئے رہنے دوں؟

اس معاملے میں چونکہ آخری اور حتمی فیصلہ رفقاء کی آراء کو ’’گننے‘‘ اور ’’تولنے‘‘ کے بعد خود مجھ ہی کو کرنا ہے لہٰذا اس کا بھی امکان ہے کہ میرا ذہن اجتماع کے دوران ہی یکسو اور کسی ایک رائے پر جازم ہو جائے اور میں اس کا اعلان بھی کر دوں … اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے حتمی رائے قائم کرنے میں مزید وقت درکار ہو.
اس پہلی بات کے ضمن میں ضمنی مشورہ یہ بھی درکار ہو گا کہ نامزدگی کی صورت میں اس کا اعلان اپنی زندگی ہی میں کر دوں یا اسے وصیت کی صورت میں لکھ کر رکھ دوں. (مؤخر الذکر صورت میں اس کا امکان رہے گا کہ میں اپنی ’’وصیت‘‘ پر نظر ثانی بھی کرتا رہوں!)
فقط والسلام
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۲ ۱ مارچ ۱۹۹۵ء

(۵) ان مسائل پر کھلی بحث و تمحیص کے بعد استصواب رائے سے حسب ذیل نتائج سامنے آئے:

(i) اجتماع کے اس سیشن میں موجود ۳۱۰ رفقاء میں سے بہت بھاری اکثریت‘ یعنی ۲۸۴ رفقاء نے اوّل الذکر کے حق میں فیصلہ دیا. صرف ۱۹ رفقاء کی رائے یہ سامنے آئی کہ آئندہ تنظیم کو بیعت کی بجائے کسی دستوری نظم پر استوار کیا جانا چاہئے‘ جبکہ ۷ رفقاء نے کسی رائے تک نہ پہنچنے کے باعث سوال نامہ خالی واپس لوٹایا. 

(ii) اجتماع کے دوسرے سیشن میں شریک ۳۱۳ رفقاء میں سے بھی ایک عظیم اکثریت‘ یعنی ۲۸۴ رفقاء نے پہلے سوال کے جواب میں یہ رائے ظاہر کی کہ مجھے اپنا جانشین اپنی زندگی ہی میں نامزد کر دینا چاہئے. ۲۷ رفقاء نے اس کے خلاف رائے دی‘ جبکہ ۵ ر فقاء نے کسی رائے تک پہنچنے سے عجز کا اظہارکیا. یہاں بھی گویا نوے فیصد سے زائد رفقاء ایک رائے پر متفق نظر آتے ہیں. 
تاہم اس مسئلے سے متعلق دوسرے سوال کے جواب میں رفقاء واضح طو رپر دو حصوں میںبٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں. ۱۶۷ رفقاء کی رائے یہ تھی کہ اپنے جانشین کا اعلان مجھے اپنی زندگی ہی میں کر دینا چاہئے. اس کے مقابلے میں ۱۰۷ رفقاء نے یہ رائے ظاہر کی کہ جانشین کے نام کا اعلان کرنے کی بجائے اس کے بارے میں اپنے فیصلے کو وصیت کی شکل میں محفوظ کر دینا زیادہ مناسب ہو گا. ۳۹ رفقاء اس معاملے میں کسی بھی رائے یا نتیجے تک پہنچنے سے قاصر رہے.

(iv) اس سوال کے جواب میں کہ ’’آپ کی رائے میں جانشینی کے سب سے زیادہ اہل کون ہیں ؟‘‘ رفقاء نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق نام تجویز کئے. یہاں ہم ان چار رفقاء کے نام درج کر رہے ہیں جن کے حق میں سب سے زیادہ رفقاء نے رائے ظاہر کی ہے. ان چار رفقاء کے نام حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں: رحمت اللہ بٹر صاحب‘ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب‘ ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب اور مختار حسین فاروقی صاحب.

(۶) اجلاس مشاورت ۱۲.۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء میں مَیں نے اعلان کر دیا کہ (i)میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں اپنا جانشین نامزد کروں گا اور (ii)اسے ایک وصیت کی شکل میں لکھ کر لاہور میں موجود تنظیم اور انجمن دونوں کے سینئر ترین رفیق سید سراج الحق صاحب کے سپرد کر دوں گا اور پھر اجلاس مشاورت ۲۹.۳۰؍نومبر ۹۵ء میں مَیں نے شوریٰ کو بتا دیا کہ میں نے اپنے فیصلے پر عمل کر لیا ہے اور اپنے جانشین کو نامزد کر کے وصیت کی شکل میں تحریر سید سراج الحق صاحب کے پاس رکھوا دی ہے .

(۷) تاہم ایک خلش میرے دل میں باقی رہی کہ ۲ تا ۴؍اپریل ۹۵ء کے اجتماع ملتزم رفقاء میں ایک تو نامزدگی کے اعلان یا وصیت کے بارے میں رفقاء کی آراء میں نمایاں تقسیم تھی‘اور دوسرے یہ کہ جانشین کے لئے رفقاء سے جو نام مانگے گئے تھے اس کے ضمن میں کوئی واضح طریق کار اختیار نہیں کیا گیا تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ تنظیم کے ملتزم رفقاء کا ایک مزید چھ روزہ تربیتی و استصوابی اجتماع منعقد کیا جائے میری اس رائے کو تنظیم کی مجلس عاملہ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۹؍مئی ۹۷ء میں منظور کر کے حسب ذیل فیصلے کئے : (ماخوذ از رجسٹر کارروائی)

٭جانشین کو نامزد کرنے کا فیصلہ خود امیر محترم کو کرنا ہے.

٭نامزد جانشین کا اعلان کرنے یا وصیت کی صورت میں محفوظ کرنے کے بارے میں اب بھی ان کو یہ پسند ہے کہ اعلان نہ کیا جائے. تاہم ملتزم رفقاء کے اجتماع میں بعض رفقاء کی آراء سن کر وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں تمام ملتزم رفقاء کی رائے دوبارہ حاصل کی جائے.

٭ قبل ازیں اس سلسلہ میں ملتزم رفقاء سے جو رائے لی گئی تھی وہ اچانک تھی لہٰذا دوبارہ رائے حاصل کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے.

٭ا س کے باوجود فیصلہ ان کی آراء کی بنیاد پر نہیں ہو گا‘ بلکہ اس کے حوالے سے امیر محترم کو اپنی رائے کو استوار کرنے میں مدد ملے گی.

اس کا طریق کار یہ ہو گا کہ:

٭ اولاً تین‘ چار رفقاء جو صاحب علم بھی ہوں اور انتظامی امور 
(Management) سے بھی واقف ہوں وہ یہ بیان کریں کہ جانشین کے لئے کیا ترجیحات ہونی چاہئیں اور ان میں کیا ترتیب ہو گی.

٭ امیر محترم اس گفتگو کو مکمل کریں گے. 

٭اس کے بعد تمام ملتزم رفقاء سے جانشین کے بارے میں رائے لی جائے گی.

٭ان آراء کے نتیجہ میں چوٹی کے پانچ؍سات رفقاء (یا مزید اگر امیر محترم خود چاہیں ) کو اس موضوع پر اظہارِ خیال کا موقع دیا جائے کہ اگر یہ ذمہ داری ان پر ڈال دی جائے تو ان کی ترجیحات کیا ہوں گی. (اس سلسلہ میں امیر محترم کچھ سوالات بنا لیں گے جن کا جواب ٭ان سے مطلوب ہو گا. رفقاء بھی سوالات کر سکیں گے.)

٭اس کے بعد ملتزم رفقاء سے دوبارہ آراء حاصل کی جائیں گی اور ان کے جائزہ کے بعد امیر محترم فیصلہ کریں گے. 

الحمد للہ کہ یہ چھ روزہ اجتماع پروگرام کے مطابق ۲۶؍اکتوبر تا یکم نومبر ۱۹۹۷ء منعقد ہوا‘ جس میں ۴۵۰ ملتزم رفقاء نے شرکت کی اور اس کے دوران اقامت دین کی جدوجہد کے عظیم مقصد کے لئے جمع ہونے والے لوگوں کی ’’اجتماعیت‘‘ کے جو حسین مناظر دیکھنے میں آئے ان سے میری طبیعت میں اس وقت بھی بہت انشراح و انبساط پیدا ہوا تھا اور اس کا کیف و سرور مجھے آج تک بھی یاد ہے اور اس میں مجھے ایک کروڑ میں ایک کی نسبت ہی سے سہی لیکن اس احساس کا عکس محسوس ہوا تھا جس کے تحت نبی اکرم‘ نے جب اپنے مرضِ وفات کی شدت میں ذرا سی کمی پر اپنے حجرئہ مبارک کا پردہ اٹھا کر مسجد میں ہونے والی نمازباجماعت کا منظر دیکھا تو آپ  کے چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ظاہر ہوئی تھی!

اس کے افتتاحی اجلاس میں مَیں نے اپنے خطاب کے آغاز میں جو الفاظ کہے تھے وہ اس اجتماع کی 
روداد کے مرتب (رفیق محترم نعیم اختر عدنان) کے مطابق یہ تھے (ماخوذ از’ندائے خلافت‘۱۹ نومبر۱۹۹۷ء) 

’’تلاوت قرآن مجید کے بعد امیر قافلہ و داعی تحریک خلافت ‘ امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ نے اپنے افتتاحی خطاب کا آغاز سورۂ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت سے کیا. امیر محترم مدظلہ نے فرمایا کہ ’’تنظیم اسلامی کی ساڑھے بائیس سالہ تاریخ میں چھ روزہ اجتماع کے انعقاد کا یہ تیسرا موقع ہے. پہلا چھ روزہ تنظیمی اجتماع اگست ۱۹۷۷ء میں منعقد ہوا تھا جس میں دیگر امور کے علاوہ تنظیم اسلامی کی قرارداد تاسیس میں انقلابی رنگ کی کمی کی تلافی اور اقامت دین کی فرضیت پر زوردار خطاب ہوا تھا. اسی اجتماع میں ’’بیعت‘‘ کی منصوص و ماثور اور مسنون اساس کو اختیار کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا. دوسرا چھ روزہ اجتماع ’’فرائض دینی کے جامع تصور‘‘ کے حوالے سے ۱۹۸۵ء میں منعقد ہوا تھا ‘جب کہ اب یہ تیسرا چھ روزہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے تو اس موقع پر تنظیم اسلامی کے داعی‘ مؤسس اور تاحیات امیر کو اپنے جانشین کی تعیین کا مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے. اس حوالے سے ندائے خلافت کی ۸ـ؍اکتوبر کی اشاعت کے ذریعے تمام تفصیلات سے آپ حضرات آگاہ ہو چکے ہوں گے. میں اپنے گھٹنوں کے آپریشن سے پہلے جانشین کے تعین کے نازک اور اہم مرحلے کے ضمن میں ضروری مشاورت کا مرحلہ مکمل کرنا چاہتا ہوں‘‘.

چنانچہ اس شش روزہ اجتماع میں دروس قرآن‘ اور تنظیم کے لٹریچر میں سے اہم حصوں کے اجتماعی مطالعے پر مستزاد ایک تو ’’تنظیم اسلامی کی کامیابیاں اور ناکامیاں‘‘کے موضوع پر رفقاء کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی جس کے ضمن میں پندرہ رفقاء نے اظہار خیال کیا. مزید برآں چونکہ یہ اجلاس اپریل ۱۹۹۵ء کے اجتماع ہی کے تسلسل کی حیثیت رکھتا تھا لہٰذا اس کی پوری کارروائی بھی پڑھ کر سنائی گئی اور اس سلسلے میں جوتقریرمیں نے اپریل ۹۷ء میں اجلاس مجلس شوریٰ میں کی تھی اس کا آڈیو کیسٹ بھی سنوایا گیا. 

اصل قابل غور مسئلے یعنی جانشین کے تعین کے ضمن میں اولاً تنظیم کے بزرگ اور سینئر رفقاء نے ’’جانشین کے مطلوبہ اوصاف‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا . جن میں مولانا سید مظفر حسین ندوی (مرحوم)‘ شیخ جمیل الرحمن (مرحوم) ‘سید سراج الحق (مرحوم) ‘ جناب قمر سعید قریشی ‘ چوہدری غلام محمد (مرحوم) ‘ جنابالطاف حسین‘ میجر (ر) فتح محمد ،جناب سید نسیم الدین اور جناب اشرف وصی شامل تھے ان کے علاوہ غلام محمد سومرو صاحب کو چونکہ اچانک واپس سکھر جانا پڑا تھا اس لئے ان کی تحریر ان کے چھوٹے بھائی احمد صادق سومرو نے پڑھ کر سنائی! 

اس کے بعد استصواب رائے کے لئے ۳۰؍اکتوبر کی صبح جملہ رفقاء کو دو دو پرچیاں دے دی گئیں 
ایک پر یہ رائے مطلوب تھی کہ جانشین کے تقرر کا اعلان بھی کر دیا جائے یا اسے وصیت ہی کے طور پر رہنے دیا جائے. اور دوسری پرچی میں ہر رفیق کو اپنی ترجیح کے مطابق جانشین کے لئے تین تین نام تجویز کرنے تھے یہ پرچیاں اجلاس ہی میں واپس وصول کر لی گئیں‘ جو سید سراج الحق صاحب کے حوالے کر دی گئیں کہ وہ ان کو پراسیس کر لیں چنانچہ شام کے اجلاس میں ایک تو سید صاحب کے آراء کے جائزے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ جانشین کے تقرر کے ساتھ اس کا اعلان عام بھی کر دیا جانا چاہئے . یہ رائے شرکاء اجتماع کی نوے فیصد کی آراء پر مبنی تھی.اور مجوزہ جانشین کے نام کے سلسلے میں ترجیح اول‘ ترجیح دوم اور ترجیح سوم کے ناموں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینے اور پھر ان کو consolidate کرنے کے نتیجے میں چھ رفقاء کے نام ٹاپ پر آئے ‘جو حرف تہجی کی ترتیب کے مطابق حسب ذیل ہیں:

۱) ناظم شعبہ تربیت‘ جناب رحمت اللہ بٹر ۲) نائب امیر‘ ڈاکٹر عبدالخالق
۳) ناظم اعلیٰ‘ جناب عبدالرزاق۴) امیر حلقہ بیرون پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالسمیع
۵) ناظم نشر و اشاعت‘ حافظ عاکف سعید۶) امیر حلقہ پنجاب جنوبی‘ جناب مختار حسین فاروقی

اس کے بعد پہلے سے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق ان حضرات کے اظہارِ خیال کا مرحلہ آیا . چنانچہ اس کے لئے پہلے تو ان سب حضرات کو ’’آڈیٹوریم بدر‘‘ کر دیا گیا پھر ان میں سے ایک ایک کو اندر بلا کر خطاب کی دعوت دی گئی تاکہ ہر شخص دوسروں کے بیان سے لاعلم رہتے ہوئے اپنی خالص ذاتی رائے بیان کرے!

اس مرحلے کی تکمیل کے بعد اب جملہ رفقاء کو آخری اور حتمی طور پر صرف ایک ایک نام تجویز کرنے کے لئے رائے دہی کی پرچیاں دے دی گئیں کہ رات کے دوران اچھی طرح غور و فکر اور استخارہ کر کے نام تجویز کریں اور اگلی صبح (یعنی ۳۱؍اکتوبر کو) نماز فجر کے وقت انہیں معین مقامات پر پہنچا دیں! جو بحمد اللہ‘ بخیر و خوبی ہو گیا‘ اور رفقاء کی آراء موصول ہو گئیں!

اب ظاہر ہے کہ یہ ساری 
exercise کسی ’’انتخاب‘‘ کے سلسلے کی نہیں تھی بلکہ خود مجھے آخری اور حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لئے ’’مشورے‘‘ کے لئے تھی. چنانچہ اس ضمن میں مَیں نے ا جتماع کے آخری اجلاس منعقدہ یکم نومبر ۱۹۹۷ء کو صبح گیارہ بجے اپنے اختتامی خطاب میں عرض کیا:

’’اپریل ۱۹۹۷ء کے اجتماع سے پہلے تک ایک رفیق کے بارے میں میرا ذہن یکسو ہو گیا تھا اور اس کی میں نے باقاعدہ وصیت بھی لکھ دی تھی ‘مگر اپریل ۹۷ء میں بعض بزرگ رفقاء کی جانب سے ایک رائے میرے 
سامنے آئی جس کی بنا پر میں مزید غور و فکر کے لئے مجبور ہو گیا. چنانچہ اس رائے کے بعد میرے سامنے ایک اور نام بھی آیا اور پھر کئی دوسرے نام بھی ذہن میں آئے. اس اجتماع کے دوران بھی میں جانشین کے حوالے سے متردّد رہا ہوں اور اب تک متردّد ہوں. اب تک کسی نام پر میں یکسو نہیں ہو سکا. اس حوالے سے اس مشاورتی سلسلے کو ابھی اور وسعت دوں گا. جانشین کے بارے میں رفقاء کی آراء جناب سید سراج الحق کے حوالے کر دی ہیںجو انہیں ’’پروسیس‘‘ کر رہے ہیں. خود مجھے بھی اس حوالے سے مزید غور و فکر کی ضرورت ہے‘ جبکہ رمضان المبارک کے آخری ہفتے میں مجھے فیصلہ کرنا ہے. تاہم جانشین کی تقرری کے حوالے سے جورفقاء مجھے کوئی خصوصی مشورہ دینا چاہیں وہ بذریعہ خط یہ مشورہ مجھے پہنچا سکتے ہیں‘‘.

واضح رہے کہ اپریل ۱۹۹۷ء تک میرے ذہن میں عزیزم عاکف سعید سلمہ‘ کا نام کبھی نہیں آیا تھا. اب سوچتا ہوں تو اس کا سب سے بڑا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آںعزیز گلے اور کان کی ایک تکلیف میں عرصے سے مبتلا ہیں جس سے بسا اوقات تقریر اور خطاب میں شدید رکاوٹ ہوتی ہے‘ اور کافی علاج معالجہ اور ایکسپرٹ آراء کے حصول کے باوجود کوئی صورت شفا کی نظر نہیں آئی.اسی طرح۱۹۹۵ء کے مشاورتی اجتماع میں جب اچانک رفقاء سے جانشین کے لئے رائے دینے کو کہا گیا تو اس میں بھی ٹاپ کے چار لوگوں میں ان کا نام نہیں تھا.اس کی وجہ بھی بہت واضح تھی یعنی یہ کہ آںعزیز فیلڈ ورک میں کبھی آئے ہی نہیں تھے اور ان کا سارا وقت تنظیم کے لٹریچر کی تدوین و اشاعت اور تین تین جرائد کی ادارت میں صرف ہوتا تھا اور یہ جملہ کام ’’پس پردہ‘‘ ہوتے تھے ‘لہٰذا رفقاءِ تنظیم کے سامنے وہ کبھی نمایاں ہو کر آئے ہی نہیں تھے.

اپریل ۱۹۹۷ء کے اجتماع کے بعد میرے سامنے دو نہایت سینئر اور معمر رفقاء کی جانب سے پورے شدّومدّ کے ساتھ عزیزم عاکف کے لئے رائے آئی. ان میں سے ایک صوبہ سرحد کے سینئر ترین رفیق اور پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے دیر سے تعلق رکھنے والے برادرم محمد فہیم صاحب تھے اور دوسرے پاکستان کے انتہائی جنوب یعنی کراچی سے تعلق رکھنے والے ‘ تنظیم کے معمر ترین رفیق اور میرے ’’بزرگ‘‘ شیخ جمیل الرحمن (مرحوم) تھے برادرم قمر سعید قریشی صاحب جو انجمن کے مؤسسین میں بھی شامل ہیں اور تنظیم کے بھی تاسیسی ارکان میں سے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں حضرات سے بھی قبل انہوں نے آں عزیز کا نام تجویز کیا تھا. لیکن نہ معلوم کیوں یہ مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا بلکہ ان کے یاد دلانے پر بھی یاد نہیں آیا ! پھر ایک موقع پر شیخ جمیل الرحمن صاحب (مرحوم) اور جناب عبداللطیف عقیلی صاحب (جو کراچی کی انجمن اور تنظیم دونوں کے فعال رکن ہیں) میرے پاس آئے اور انہوں نے عزیزم 
عاکف کے لئے دلائل دینے شروع کئے تو میں نے موجود الوقت ماحول میں بیٹے کی نامزدگی سے اعتراضات کا جو طوفان اُٹھ سکتا تھا اس کے پیش نظر کہا :’’آپ جو کچھ فرما رہے ہیں وہ سب کچھ اپنی جگہ! لیکن وہ میرا بیٹا ہے!!‘‘ اس پر جناب عقیلی صاحب نے فرمایا: ’’ڈاکٹر صاحب! بیٹا ہونا کوئی ڈس کوالیفیکیشن (Disqualification) تو نہیں ہے!‘‘ جس پر میں لاجواب ہو کر رہ گیا لیکن اس سب کے باوجود میں مذبذب اور متردّد ہی رہا. چنانچہ ۹۷ء کے اجتماعِ ملتزم رفقاء کے بعد جو پہلا اجلاس مرکزی مجلس مشاورت کا ہوا اس موقع پر میں نے جملہ اراکین مشاورت سے علیحدگی میں مشورہ بھی طلب کیا اور ان کے مشوروں پر ردّ و قدح بھی کی اور جرح و تعدیل بھی ! ۹۷ء کے شش روزہ اجتماع کے دوران آنے والی آراء کو پراسیس کرنے اور پھر اس کے بعد کی گفتگوؤں کے نتیجے میں میرا ذہن تو عزیزم عاکف کی طرف منتقل ہو گیا تھا بلکہ ان کے اوصاف کے ضمن میں جو کچھ سینئر رفقاء کی جانب سے سننے میں آیا اس پر خود مجھے حیرت ہوئی کہ میرے ذہن میں ان کا نام اب تک کیوں نہیں آیا تھا ‘لیکن متذکرہ بالا اندیشے کے پیش نظر میری کیفیت وہی تھی جو سورئہ احزاب میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کے ضمن میں نبی اکرم کی بیان ہوئی ہے!

بہرحال رمضان مبارک کے دوران مسلسل غور و فکر اور استخارہ کے جواب میں میرا ذہن الفاظ قرآنی : 
’’وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ ‘‘ (اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خداہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو) پر جم گیا چنانچہ میں نے اجلاس مشاورت منعقدہ ۱۴.۱۵؍اپریل ۱۹۹۸ء میں اعلان کر دیا کہ میرے بعد امیر تنظیم عزیزم عاکف سعید سلمہ ہوں گے. البتہ ابھی ان کی حیثیت ’’زیر تربیت‘‘ کی رہے گی اور تنظیم کا موجودہ نظم علیٰ حالہٖ برقرار رہے گا!

الغرض! یہ ہے مختصر داستان اس طویل سلسلۂ مشاورت کی جس کے نتیجے میں امیر تنظیم اسلامی کی حیثیت سے میرے جانشین کے طور پر عزیزم عاکف سعید صاحب کا تقرر ہوا!

عزیزم عاکف سعید کی جانشینی کے فیصلہ کا خیر مقدم تنظیم اسلامی کے رفقاء کے حلقے میں عمومی خوشدلی کے ساتھ ہوا. صرف اکّا دکّا رفقاء نے اسی عام تصور کے تحت جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ‘شدت تاثر میں تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی بہرحال میں اپنی جگہ پوری طرح مطمئن ہو کر ایک SENSE OF RELIEF کی سی کیفیت کے ساتھ گھٹنوں کے بڑے اپریشن کے لئے امریکہ روانہ ہو گیا‘ جہاں تین ماہ کے لگ بھگ قیام رہا. اس عرصے کے دوران عزیزم عاکف نے ہی قائم مقام امیر کے فرائض سرانجام دیئے. اور واپسی پر جو حالات معلوم ہوئے ان سے اپنے فیصلہ پر بحمد اللہ مزید انشراح ہوا. اس کے بعد بھی میرے اسفار کے دوران یہی عمل جاری رہا. 

بعد ازاں جب میں نے ستمبر ۲۰۰۲ء میں منعقد ہونے والی شوریٰ کے اجلاس میں تنظیم کی امارت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تو میں نے سب سے پہلے خود عزیزم حافظ عاکف سعید سلمہ ٗ کے ہاتھ پر بیعت کرلی. اور پھر تنظیم کی مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کے پچاس کے لگ بھگ ارکان نے بھی بیعت کر لی (سوائے دو حضرات کے) اور اس طرح تنظیم کی قیادت نہایت ہموار طریقے پر اگلی نسل کو منتقل ہو گئی.

اب میں اپنی آنکھوں کے سامنے تنظیم کی آئندہ قیادت کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جس سے اطمینان حاصل ہو رہا ہے کہ ان شاء اللہ تنظیم اسی نہج پر کام کرتی رہے گی. اور جس طرح جانشین کے فیصلے کے بعد میں پورے اطمینان کے ساتھ بڑے اپریشن کے لئے امریکہ روانہ ہوا تھا‘ ان شاء اللہ اسی طرح کے اطمینان کے ساتھ اپنی عمر بھر کی کمائی کو اپنی نگاہوں کے سامنے پھلتے پھولتے دیکھ کر عالم آخرت کے سفر پر روانہ ہو سکوں گا! 
اللّٰھم آمین! (۱
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۳ دسمبر ۲۰۰۳ء 

(۱) الحمد للہ! جیسے بانیٔ محترمؒ نے تحریر فرمایا تھا ایساہی ہوا اور 14-13اپریل 2010ء کی درمیانی شب یہ عظیم داعیٔ انقلابِ اسلامی اپنی نصف صدی پر مشتمل مساعی کو آگے بڑھانے کے لئے آئندہ نسل کے حوالے کرگئے. 
انا ﷲ واناالیہ راجعون