ارکانِ اسلام اور ان کی اہمیت

ہماری اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ دین کے تقاضوں میں سے پہلا تقاضا اسلام پر کاربند اور عمل پیرا ہونا ہے. اس کے لیے چار اصطلاحات ہیں: (۱)اسلام (۲) اطاعت (۳) تقویٰ (۴)عبادت. ان میں جامع ترین اصطلاح عبادت ہے‘جس کا مفہوم ہمہ تن‘ہمہ وقت اور ہمہ جہت بندگی اور پرستش ہے‘یعنی محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر کلی اطاعت!

اب میں چاہوں گا کہ ضمیمہ 
(Appendix) کی حیثیت سے اس کے ساتھ یہ بات جوڑ لیجیے کہ یہ کام آسان نہیں ہے‘بڑا مشکل ہے. اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ: ؎

چوں می گویم مسلمانم بہ لرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را!

یعنی میں جب یہ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو مجھ پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے‘کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ’’لاالٰہ الاّ اﷲ‘‘ کہنے سے کیا لازم آتا ہے! جو اس کی حقیقت سے واقف نہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘لیکن جن کو اس کلمے کے تقاضوں اور مطالبوں کا علم ہے وہ تو واقعتاً یہ کلمہ زبان سے ادا کرتے ہوئے کانپ اُٹھتے ہیں. لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے ہم پر یہ کرم فرمایا کہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے چار عبادات عطا فرمادیں‘جنہیں ارکانِ اسلام بھی کہا جاتا ہے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

بُـنِیَ الْاِسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ : شَھادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ 
(۱
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد( ) اس کے بندے اور رسول ہیں‘نماز قائم کرنا‘زکوٰۃ ادا کرنا‘بیت اﷲ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا.‘‘

ہر شخص شہادتین کی ادائیگی سے اسلام میں داخل ہوتا ہے. یہ گویا بنیاد اور فاؤنڈیشن ہے. عملی ستون چار ہیں : نماز‘زکوٰۃ‘حج بیت اﷲ اور رمضان کے روزے. ان ہی کو ہم ’’عبادات‘‘ کہہ دیتے ہیں‘اگرچہ پورے قرآن مجید میں ان کے لیے لفظ ’’عبادت‘‘ کہیں نہیں آیا. عبادت کا لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے جس کی تشریح میں نے کی ہے. یعنی یہ کہ انسان ہمہ وقت‘ہمہ تن‘ہمہ جہت اﷲ کی محبت سے سرشار ہوکر اس کی بندگی اور پرستش کرے.لیکن یہ ’’عبادات‘‘اس فریضۂ عبادتِ ربّ کے لیے انسان کو تیار کرتی ہیں اور اس راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنے میں اس کی ممدومعاون ہوتی ہیں.

چنانچہ نماز کا نظام اس لیے عطا ہوا کہ دن میں پانچ مرتبہ اپنی مصروفیات سے نکلو اور اﷲ کے روبرو کھڑے ہوکر اپنے قول و قرا ر اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ (الفاتحۃ) کی تجدید کرو اور اپنے ایمان کو تازہ رکھو .لہٰذا فرمایا گیا: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ (طٰہٰ) ’’نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘.کہیں مصروفیات میں گم ہوکر اپنے ربّ کو بھول نہ جاؤ. زکوٰۃ کی عبادت اس لیے مرحمت فرمائی ہے کہ مال کی محبت کو دل سے کھرچا جاسکے‘جو بڑی تباہ کن شے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب بنی الاسلام علی خمس. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ العظام. واللفظ لہ. ہے اور سواَمراض کا ایک مرض ہے. روزہ اس لیے فرض ہوا کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’تاکہ تم پرہیزگار بن جائو!‘‘ نفس کا گھوڑا بڑا منہ زور ہے‘اس کو لگام دینے اور قابو میں رکھنے کی روزوں کے ذریعے تربیت حاصل ہوجائے اور اس کے بے محابا تقاضوں سے بچا جاسکے .اور حج کے اندر یہ تمام برکات جمع کردی گئیں. اس میں ذکر بھی ہے‘طواف بھی ہے. اس میں احرام کی پابندیاں بھی ہیں جو روزے سے مشابہ ہیں. اس میں پیسے کا خرچ بھی ہے جو زکوٰۃ کے مشابہ ہے تو یہ چار ارکانِ اسلام یا چار عبادات اس لیے فرض کی گئیں تاکہ اسلام کی چھت ان ارکان یعنی ستونوں پر استوار ہوجائے. یہ ارکانِ اسلام عبادتِ کلی کے لیے سہارے اور support کا کام انجام دیں. تو اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ تسہیل فرمائی ہے اور ہمارے لیے یہ آسانی فراہم فرمائی ہے. یہاں پہلی بات سے متعلق گفتگو ختم ہوئی. اب آئیے دوسری بات کی طرف! 

دوسرا فریضہ دین کو دوسروں تک پہنچانا 

میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارا دوسرا فرض اور ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں. پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اس پر خود عمل پیرا ہوں‘اس پر کاربند ہوں. لیکن دوسرا فرض اور دوسری ذمہ داری اسلام کو پھیلانے سے تعلق رکھتی ہے. اس ذمہ داری کے لیے بھی کئی اصطلاحات ہیں‘لیکن چار کو ضرور ذہن نشین کرلیاجائے.