فرائضِ دینی کے تین لوازم

پہلا لازمہ جہاد


اب آئیے ان تین اُمور کی طرف جن کی حیثیت ان فرائض کے لوازم یعنی لازمی تقاضوں کی ہے. ان میں سے پہلے لازمی تقاضے کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہوگا کوشش اور کشاکش. غور کیجیے کہ کوشش اور محنت کیے بغیر کیا یہ منزلیں سرہوسکتی ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ محض کوشش اور محنت سے بھی کام نہیں بنتا‘اس لیے کہ یہاں خلاء تو ہے نہیں.آپ اگر اپنے نظریات کے مطابق کوشش کررہے ہیں تو اور لوگ بھی تو ہیں جو اپنے نظریات کے لیے کوشش کررہے ہیں. لہٰذا کوشش‘کوشش سے ٹکرائے گی. جب کوششیں باہم ٹکراتی ہیں تو اس کا نام ہوتا ہے کشاکش‘جسے عام طور پر کشمکش بھی کہا جاتا ہے. اس کشاکش یا کشمکش کے لیے دینی اصطلاح ’’جہاد‘‘ ہے. یہ جہاد وہ پہلا لازمی عمل ہے کہ اگر یہ ہوگا تو دین کے وہ تین بنیادی تقاضے پورے ہوں گے جو ہمارے سامنے آئے‘ورنہ نہیں. اب اس لفظِ جہاد کو ان تین بنیادی تقاضوں کے حوالے سے بھی سمجھ لیجیے. 

(۱) جہاد مع النفس: فرائضِ دینی کی پہلی سطح یعنی اسلام‘اطاعت‘تقویٰ اور عبادت کی سطح پر جہاد کس سے ہوگا؟ اپنے نفس سے اپنے نفس کو اﷲ کا مطیع بنانے کے لیے کشاکش کرنی ہوگی‘کیونکہ نفس توکسی اور طرف ز ور لگاتا رہتا ہے.ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳. وہ حرام کی طرف بڑھنا چاہتا ہے‘آپ کو اسے روکنا ہوگا. اس کے اندر خواہشات کا سرکش گھوڑا ہے‘آپ کو اسے لگام دینی ہوگی. صبح ہوگئی ہے‘اذان سن لی ہے‘اﷲ کی پکار آگئی ہے‘نفس کہتا ہے کہ سوتے رہو. اس سے کشمکش کریں گے اور اسے زیر کریں گے تو نماز کے لیے کھڑے ہوسکیں گے‘ورنہ نہیں. اگر اُس وقت ذرا سی کروٹ لی اور چادر اوپر سرکالی کہ ابھی اٹھتے ہیں تو پھر اٹھنا محال ہے. یہی کشمکش و کشاکش دراصل جہاد کی پہلی اور اہم ترین سطح ہے.حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا: اَلْـمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (۱حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا: اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’اے اﷲ کے رسول ! (۱) سنن الترمذی، کتاب فضائل الجھاد عن رسول اﷲ، باب ماجاء فی فضل من مات… بہترین جہاد کون سا ہے؟‘‘ آنحضور نے فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (۱’’یہ کہ تو اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے لیے ان سے جہاد کرے‘‘.ایک موقع پر آنحضرت نے روزمرہ کے معمولات کو اﷲ کے احکام کے تابع رکھنے کو ’’جہادِ اکبر‘‘ قرار دیا‘اور یہ موقع سفرِ تبوک سے واپسی کا تھا جس سے زیادہ طویل اور سخت سفر شدید گرمی کے موسم میں کوئی اور نہیں ہوا تھا. ایک روایت کے مطابق اس سفر سے مدینہ منورہ مراجعت ہورہی تھی تو اس موقع پر فرمایا: رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ ’’ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹے ہیں‘‘. یعنی لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اعداء سے مقابلہ اور کشاکش ہی جہاد ہے‘بلکہ یہ جو ہمارے اندر بیٹھا ہوا دشمن ’’ہمارا نفس‘‘ ہے ‘اہم ترین کشاکش اس سے کرنی پڑتی ہے. اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کی پہلی سطح اور اس کا پہلا مرحلہ ’’جہاد مع النفس‘‘ ہے. یعنی اپنے نفس کے ساتھ کشاکش اور پنجہ آزمائی! 

(۲) جہاد بالقرآن: دینی فرائض کے دوسرے مرحلے یعنی تبلیغ‘دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کی سطح پر جہاد کی صورت کیا ہوگی؟ دیکھئے! آپ اگر دین کی تبلیغ کررہے ہیں ‘اس کی دعوت دے رہے ہیں تو الحاد‘دہریت‘مادہ پرستی ‘فسطائیت‘اشتراکیت اور دوسرے اَدیان و مذاہب باطلہ کے مبلغین بھی تو آپ کے اسی معاشرے میں موجود ہیں. آپ اسلام کے قائل ہیں تو کفر کی طاقتیں بھی یہیں موجود ہیں. دعوت و تبلیغ کی سطح پر ان سے کشمکش و کشاکش ہوگی. البتہ یہ کشاکش نظریاتی سطح پر ہوگی‘خیالات کی سطح پر‘فلسفہ و فکر کی سطح پر اس کشاکش میں مال اور جسم و جان کی توانائیاں کھپانی پڑیں گی. رسول اللہ جب توحید کی دعوت دے رہے تھے تو آپؐ کے مقابل ابوجہل اور اس کے ساتھی شرک اور بُت پرستی کے علمبردار بن کر کھڑے تھے. چنانچہ باہم کشاکش ہوئی یانہیں؟

پس تبلیغ و دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کی ادائیگی کے لیے جب آپ محنت‘کوشش اور جدوجہد کریں گے تو اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کو دیکھتے ہی کفر اور الحاد میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو یہ محض ایک مغالطہ ہے. اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آپ کو کشمکش و کشاکش سے سابقہ پیش آکر رہے گا. اب مرحلہ مشکل تر ہوگیا. پہلے تو اپنے باطن میں کشاکش والا معاملہ تھا‘جہاد مع النفس تھا‘اب دعوت و تبلیغ کے لیے‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اور شہادت علی الناس کے لیے آپ کو جہاد کرنا ہوگا‘کشمکش کرنی پڑے گی باطل کے ساتھ‘الحاد کے ساتھ‘اباحیت کے ساتھ اور تمام باطل نظریات کے ساتھ. (۱) رواہ الدیلمی، بحوالہ کنز العمال، ۴/۲۶۹ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۱۴۸ ۶ اس جہاد اور کشاکش میں تلوار کون سی چلے گی؟ اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں رہنمائی فرمائی : وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ کہ اے نبیؐ ! ان کفار سے جہاد کیجیے اس قرآن کے ساتھ‘زبردست جہاد.یہاں ’’بِہٖ‘‘ کی ضمیر مجرور قرآن کی طرف جارہی ہے. فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے تمہارے ہاتھ میں قرآن دیا ہے‘یہ وہ تلوار ہے جو ہر باطل نظریے کو کاٹ پھینکنے والی ہے. ایک تلوار لوہے کی ہوتی ہے‘اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا. قرآن بھی ایک تلوار ہے. علامہ اقبال نے اس کو بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ نفس اور شیطان کے ساتھ کشمکش کرنے کے لیے یہی قرآن کی تلوار کام دے گی: ؎

کشتنِ ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اَعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی!

’’ابلیس کو ہلاک کرنا ایک مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ وہ انسان کے دل کی گہرائیوں کے اندر روپوش ہو جاتا ہے. چنانچہ بہتر یہ ہو گا کہ تم اسے مسلمان کر لو اور(اس کا طریقہ یہ ہو گاکہ) تم شمشیرِ قرآنی کے ذریعے اسے گھائل کرو!‘‘

چنانچہ نفس امّارہ کو بھی مارو گے تو قرآن کی تلوار سے مارو گے‘ویسے یہ نہیں مرے گا. اورشیطان سے لڑنے کے لیے بھی یہی تلوار کام آئے گی جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں قرآن مجید کی صورت میں دی ہے اور جو محمدٌ رسول اﷲ  کا سب سے بڑا معجزہ ہے‘جسے ہم نے ’’کتابِ مقدس‘‘ بنا کر طاقوں میں رکھ چھوڑا ہے. تویہ جہاد کی دوسری سطح ہوئی. یعنی فکری و نظریاتی سطح پر کشاکش اور تصادم. حق کا بول بالا کرنا‘یعنی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے جان و مال سے سعی و جہد کرنا. اس کے لیے زبان بھی استعمال ہوگی اور قلم بھی. اس میں تمام ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے تمام وسائل استعمال ہوں گے اور ان سب کے ذریعے قرآن مجید کی دعوت اور اس کے پیغام کو پھیلایا جائے گا. 

(۳) قتال فی سبیل اﷲ: تیسری سطح یعنی اﷲ کے دین کو بالفعل قائم و نافذ کرنے کے مرحلے پر یہ جہاد بھی اپنی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور یہ جہاد کا تیسرا اور بلند ترین مرحلہ ہے. اس مرحلہ میں باطل کے علمبرداروں کے ساتھ کشاکش اور تصادم ہوگا. دعوت و تبلیغ کے مرحلے میں کشاکش اور تصادم باطل نظریات کے ساتھ تھا‘ لیکن جب دین کو قائم کرنے کا مرحلہ آئے گا تو یہ کشاکش اور تصادم محض باطل نظریات سے نہیں بلکہ باطل کے علمبرداروں اور باطل کی قوتوں کے ساتھ ہوگا. اس لیے کہ وہ اس راستے میں مزاحم ہوں گے. وہ ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہم ہٹ جاتے ہیں‘آپ آئیے اور اپنا دین قائم و نافذ کردیجیے! ؏ ایں خیال است و محال است و جنوں!ہر نظامِ باطل کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات (privileged classes) کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں. ایسے طبقات کے ہاتھوں میں ملک کے معاملات کی زمامِ کار ہوتی ہے. تو کیا ایسے تمام طبقات کبھی یہ گوارا کریں گے کہ آپ وہ رائج نظام جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں‘ہٹا کر دین کا نظام مکمل طور پر قائم کردیں؟ اس بات کو وہ لوگ ٹھنڈے پیٹوں ہرگز برداشت نہیں کریں گے. چنانچہ ان کے ساتھ لازماً پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی. اس پنجہ آزمائی کی بھی مختلف سطحیں ہیں. پہلی سطح صبرو مصابرت اور استقامت(Passive Resistance) کی ہے. دوسری سطح اقدام (Active Resistance) کی ہے‘ جبکہ تیسری سطح مسلح تصادم (Armed Conflict) کی ہے. اہل حق اگر کمزور ہوں تو جب تک طاقت حاصل نہ ہو جائے انہیں صبر محض کی روش پر عمل کرنا ہوگا. وہ مار کھائیں گے لیکن ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے‘کیونکہ حکمت اسی میں ہے. مکہ مکرمہ میں اسی حکمت پر عمل ہوا. وہاں اہلِ ایمان کو یہی حکم تھا کہ مصائب جھیلو‘ظلم و تعدی برداشت کرولیکن ہاتھ نہ اُٹھائو. یہ ہے صبر و مصابرت‘یعنی Passive Resistance لیکن جب طاقت حاصل ہو جائے تو پھر انہیں اجازت ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں. چنانچہ وہی مسلمان جو مکہ میں ہاتھ نہیں اُٹھا رہے تھے‘مدینہ میں ان کے ہاتھ کھول دیے گئے. انہیں اذنِ قتال دے دیا گیا. ازروئے الفاظِ قرآنی: 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ 
‘(الحج) 
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف (کفار کی طرف سے) جنگ کی جارہی ہے‘کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور بے شک اﷲ ان کی مدد پر قادر ہے.‘‘
تو جان لیجیے کہ اس کشمکش کا آخری مرحلہ مسلح تصادم 
(Armed Conflict) ہے‘یعنی قتال فی سبیل اﷲ. اور یہ جہاد کی چوٹی ہے. سورۃ الصف میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ یہی چوٹی محبوبیت ربّ کا مقام ہے. ارشاد ہوا:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 
’’بلاشبہ اﷲ کو تو اپنے وہ بندے محبوب ہیں جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اس طرح صفیں باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘

اس موقع پر میں صحیح مسلم کی ایک حدیث شریف کا حوالہ دے رہا ہوں. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا : 

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ 
(۱
’’جو شخص اس حال میں مرگیا کہ نہ تو اس نے (اﷲ کی راہ میں) جنگ کی اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہی پیدا ہوئی تو وہ ایک قسم کے نفاق پر مرا.‘‘

چنانچہ دل میں یہ تمنا ضرور رکھنی چاہیے. اگر دل میں فی الواقع ایمان موجود ہے تو یہ آرزو ضرور رہے کہ کوئی وقت آئے کہ خالصتاً اﷲ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ہم اﷲ کی راہ میں اپنی گردنیں کٹا کر سرخرو ہوجائیں. اگر اس تمنا سے سینہ خالی ہے تو اس سینے میں نفاق ہے. میں پھر عرض کردوں کہ یہ جناب محمدٌ رسول اﷲ  کا فتویٰ ہے. 

دوسرا لازمہ التزامِ جماعت

فرائضِ دینی کے ضمن میں دوسرا لازمی تقاضا التزامِ جماعت ہے. کون ہے جو بقائمی ٔہوش و حواس یہ کہہ سکے کہ یہ کام انفرادی طور پر ہوسکتے ہیں؟ کوئی ایک بھی سلیم العقل شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ رائے رکھتا ہو کہ ان کاموں کے لیے جماعت ضروری نہیں.اگر یہ اُمور یعنی عبادتِ ربّ‘اطاعتِ ربّ‘ شہادت علی الناس‘امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ اقامتِ دین اور اظہارِ دین الحق علی الدین کلہ فرائض دینی ہیں تو ان کے لوازم کا شمار بھی فرائض میں ہوگا‘کیونکہ جو شے فرض کی ادائیگی کے لیے لازمی ہو وہ بھی فرض ہے. مثلاً نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے لیے وضو شرط ہے تو وضو بھی فرض ہوا کہ نہیں؟ حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام شرط ہے تو احرام بھی فرض ہوا کہ نہیں؟ لہٰذا‘التزامِ جماعت بھی لازم و واجب ہے. نبی اکرم کا حکم ہے‘جسے حضرت حارث الاشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِہِنَّ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۲
’’(مسلمانو!)میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں‘اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے: التزامِ جماعت کا‘(امیر کا حکم) سننے اور ماننے کا‘ہجرت کا‘اور اﷲ کے راستے میں جہاد کا!‘‘ 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو.

(۲) مسند احمد ۴؍۱۳۰.وسنن الترمذی‘ کتاب الامثال‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام 
ہجرت کیا ہے؟ یہ کہ ہر اُس چیز کو چھوڑ دینا جو اﷲ کو پسند نہ ہو جیسے رسول اﷲ سے پوچھا گیا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ؟ تو آپؐ نے جواب دیا: اَنْ تَھْجُرَ مَاکَرِہَ رَبُّکَ (۱یہاں تک کہ وقت آئے اور گھر بار اور وطن چھوڑ نا پڑے تو اس کے لیے بھی انسان ہر دم آمادہ رہے. اور یہ ہجرت کی چوٹی ہے. جیسے جہاد کی چوٹی قتال فی سبیل اﷲ ہے اسی طرح ہجرت کی چوٹی اﷲ کے دین کے لیے ترکِ وطن ہے. رہا جہاد فی سبیل اﷲ تو اس کا آغاز مجاہدہ مع النفس سے ہوتا ہے اور اس کی چوٹی اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قتال ہے. اور سب سے پہلی چیز جس کا اس حدیث میں حکم دیا گیا وہ التزامِ جماعت ہے. یہ ہے التزامِ جماعت کی فرضیت!
اب یہ آپ حضرات کے سوچنے کی بات ہے کہ آپ کسی ایسی جماعت میں شامل ہیں یا نہیں جو اقامت دین کے لیے‘دین کو قائم کرنے کے لیے ‘دین کو برپا کرنے کے لیے اور دین کو شہادت علی الناس کی سطح پر دنیا میں پھیلانے کے لیے قائم کی گئی ہو. باقی اگر آپ نے رفاہِ عامہ ‘خدمتِ خلق ‘اشاعت تعلیم یا اپنے پیشہ ورانہ مفادات کے تحفظات کے لیے کوئی انجمن‘کوئی ادارہ یا کوئی ایسوسی ایشن بنائی ہوئی ہو تو اس پر ’’جماعت‘‘ کا اطلاق نہیں ہوگا. اس حدیث کی رو سے تو وہ جماعت درکار ہے جس کا مقصدِ وجود اﷲ کے دین کا غلبہ ہو. بقول علامہ اقبال:

؎
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے‘جام رہے؟

اور ؎
مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں‘ میں اسی لیے نمازی

اور یہ بات بھی جان لیجیے کہ اس جماعت کا نظام ٹھیٹھ اسلامی اصول ’’سمع و طاعت‘‘ پر ہونا چاہیے‘جس کا حکم بھی مذکورہ بالا حدیث میں 
’’بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے. اگر آپ ایسی کسی جماعت میں شامل نہیں ہیں تو دین کے یہ تقاضے گویا آپ کے سامنے ہی نہیں ہیں. 

تیسرا لازمہ بیعت

دینی فرائض کے لوازم میں سے تیسری چیز یہ ہے کہ اس جماعت کا جو نظام قائم ہو وہ بیعت پر مبنی 

(۱) سنن النسائی‘ کتاب البیعۃ‘ باب ھجرۃ البادی. عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنھما. ہو.یہ وہ واحد نظام ہے جو ہمیں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے سے ملتا ہے. کتاب و سنت میں مجھے اس کے سوا کوئی دوسرا نظام نہیں ملا اور نہ کوئی مجھے آج تک بتا سکا. اب یہ بات سمجھئے کہ یہ بیعت ہے کیا! ایک شخص سے ان فرائض کی ادائیگی کے ارادے سے شخصی تعلق قائم کرنا‘اس کے ہاتھ پر ان فرائض کی انجام دہی کے لیے قول و قرار کرنا بیعت ہے. میں نے شروع ہی میں لفظ ’’مرید‘‘ کی وضاحت کردی تھی کہ مرید وہ ہے جو ارادہ کرے. یعنی ایسا فرد جو اپنی اصلاح کے ارادے سے کسی کے ہاتھ پر قول و قرار کے لیے بیعت کرلے. چنانچہ شخصی اصلاح اور تزکیۂ نفس کے لیے بیعت کی جاتی ہے. اور یہ بیعت اسلام‘اطاعت‘تقویٰ اور عبادت کے تقاضوں اور مطالبوں پر پورا اترنے کے لیے کسی مرد صالح کے ہاتھ پر ہوتی ہے. یہ بیعت ’’بیعت توبہ‘‘ یا’’بیعت ارشاد و تزکیہ‘‘ کہلاتی ہے اور جب اﷲ کے دین کی تبلیغ و دعوت‘دین کی نشرواشاعت‘شہادت علی الناس اور اقامت دین جیسے عظیم فرائض کی ادائیگی اور اس کے لیے سمع و طاعت پر مبنی جماعت کے قیام اور ہجرت و جہاد کا مرحلہ درپیش ہوتو اس کے لیے بھی ایسے شخص کے ہاتھ پر جو اِس کام کا عزم لے کر اُٹھا ہو‘شخصی بیعت ہوگی اور یہ بیعت’’بیعتِ جہاد‘‘ کہلائے گی.

ماضی قریب میں برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ علیہ کی عظیم تحریک ’’تحریک شہیدین‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی‘اس لیے کہ اس میں دوسری اہم شخصیت امام الہند حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کی شامل تھی. ورنہ نا معلوم کتنے ہزاروں مسلمان اس میں شہید ہوئے: ؎

بِنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

اس تحریک کے نتیجے میں اس برعظیم پاک و ہند میں خالصتاً اﷲ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد و قتال ہوا. اس میں سید احمد شہید بریلویؒ نے پہلے بیعت ارشاد لی اور پھر بیعت جہاد اور اس بیعت جہاد کی وہ آخری منزل بھی آئی کہ سیف بدست میدانِ جنگ میں قتال کیا اور سکھوں کی فوج کے ہاتھوں گردن کٹوا کر بارگاہِ ربّ العزت میں سرخرو ہوگئے. 


وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾ (البقرۃ) 
اس تحریک کا نظم شخصی بیعت پر قائم ہوا تھا‘لیکن آج یہ لفظ گالی بن گیا ہے. میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں تو لفظ مرید بھی بدنام ہوگیا‘ اور پھر اﷲ جانے ہم نے دین کی کتنی عظیم اصطلاحات کو بدنام کرچھوڑا ہے. 
لیکن اس وجہ سے ہم دین کی کسی بھی اصطلاح کو اِن شاء اﷲ ترک نہیں کریں گے ‘بلکہ ان میں اصل روح پھونکنے کی ہر امکانی کوشش کریں گے.

اب ذرا مزید توجہ کیجیے. ایک اہم بات عرض کررہا ہوں اور وہ یہ کہ آپ میں سے اکثر حضرات کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں دینی حلقوں میں یہ تصور عام رہا ہے اور آج بھی ہے کہ اگر کسی کی بیعت کا حلقہ تمہاری گردن میں نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ دین کا صحیح تقاضا پورا نہیں ہورہا. میں کہتا ہوں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ:

’’اگر بیعت جہاد کے لیے آپ کسی کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں ‘تو دین کے وہ تقاضے اور فرائض‘جو میں نے قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے آپ کے سامنے قدرے تفصیل سے بیان کیے ہیں‘ وہ پورے نہیں ہوسکتے.‘‘

البتہ یہ ضرور ہے کہ اب چونکہ کوئی نبی نہیں‘کوئی معصوم نہیں‘لہٰذا آپ کو خود تلاش کرنا پڑے گا کہ ہے کوئی اﷲ کا بندہ جو ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ کی صدا لگارہا ہو اور ان فرائض کی انجام دہی کے لیے کوشاں ہو اور آگے بڑھ رہا ہو!اور اگر آپ کا دل اس پر مطمئن ہوجائے‘اس کے فہم اور اس کے خلوص و اخلاص پر آپ کو اعتماد پیدا ہو تو اس کے ساتھ وابستہ اور منسلک ہوجائیے!… میں کہا کرتا ہوں کہ اس طرح اگر ہزار قافلے بھی بن جائیں تو کوئی حرج نہیں‘بشرطیکہ منزل ایک ہو. اگر دینی فرائض کا تصور صحیح ہو‘اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول  کی سنت کے مطابق ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ بیک وقت کئی قافلے اس تصور کو لے کر رواں دواں ہوجائیں. منزل تو سب کی ایک ہی ہوگی. میرے نزدیک سب کا ایک ہونا اب لازم نہیں ہے. سب کا ایک ہونا صرف رسول کے ساتھ ہونا لازم ہوتا ہے. میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ایامِ حج میں جب منیٰ سے وقوفِ عرفات کے لیے سفر ہوتا ہے تو بیک وقت ہزاروں قافلے چلتے ہیں‘جن میں سے ہر ایک کا جھنڈا الگ ہوتا ہے. لیکن سب کا رُخ کس طرف ہے؟ عرفات کی طرف! منزل تو سب کی ایک ہی ہے. چنانچہ اگر ہزاروں قافلے بھی ہوگئے تو کوئی حرج نہیں.

تاہم اگر کوئی شریک ِ سفر یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے قافلے والوں میں فرائض دینی کا صحیح اور مکمل تصور ہی مفقود ہے‘یا یہ کہ جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے اس کا رُخ منزل کی طرف صحیح طور پر نہیں ہے‘بلکہ شاہراہ کو چھوڑ کر کوئی شارٹ کٹ اختیار کرلیا گیا ہے‘جس کی بدولت منزلِ مقصود تک جلد پہنچنے کی بجائے یہ قافلہ اس شارٹ کٹ کی بھول بھلیوں اور راستے کے جھاڑ جھنکاڑ میں ایسا الجھ کر رہ گیا ہے کہ منزل کو جانے والی اصل شاہراہ سے تعلق ہی منقطع ہوگیا ہے ‘یا کسی قائد پر دل مطمئن نہیں ہو رہا ہے اور اندیشہ ہے کہ یہ صحیح شخص نہیں ہے‘یا مخلص نہیں ہے‘محض دکاندار ہے تو ایسی صورت میں وہ کسی اور کو تلاش کرے‘ یا پھر خود کھڑے ہوکر پکارے کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ خود قافلہ بنانے کی سعی کرے یہاں کسی کی اجارہ داری نہیں ہے‘تمام حقوق کسی کے نام محفوظ نہیں ہیں کہ کوئی دوسرا قافلہ نہیں بنا سکتا. میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے. اگر نیت صاف ہو‘دل میں خلوص ہو‘دوسروں سے الجھنے سے اجتناب ہو‘سامنے منزل اقامتِ دین کی ہو تو خواہ سینکڑوں قافلے ہوں یا ہزاروں‘کوئی مضائقہ نہیں. خلوص و اخلاص ہوگا تو وقت آنے پر وہ باہم جڑتے چلے جائیں گے .اور اگر چلنا ہی نہیں ہے تو تم بھی کھڑے ہو‘ہم بھی کھڑے ہیں ؏ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد یہ ہے طرزِ عمل جو ہمارا آج ہے. اور بعض لوگوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ نہ چلیں گے نہ چلنے دیں گے‘نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے. تو ہر طرزِ عمل آپ کو مل جائے گا. لیکن جسے بھی چلنا ہے اور اس کی چلنے کی نیت ہے تو وہ کوئی قافلہ تلاش کرے اور جس پر بھی دل مطمئن ہوجائے اس میں شامل ہوجائے. اس کے بعد آنکھیں کھلی رکھے‘کان کھلے رکھے‘ دائیں بائیں دیکھتا رہے‘اس سے بہتر قافلہ ملے تو اس کی طرف لبیک کہے. آخر دُنیوی معاملات میں بھی ہمارا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے نا کہ ع ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!‘‘ یہ تو نہیں ہوتا کہ آپ کہیں کہ اب میں ایک کاروبار شروع کرچکا ہوں‘کیا کروں؟ اس میں تو منافع نہیں ہے‘ہے تو بہت قلیل‘اصل میں مجھے فلاں کاروبار کرنا چاہیے تھا. بلکہ آپ اپنے کاروبار کی بساط لپیٹیں گے اور کوئی دوسرا کام شروع کردیں گے.