الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿262﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس تیار ہے اور (قیامت کے روز) نہ انکو کچھ خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے ‏
تفسیر
مخیر حضرات کی تعریف اور ہدایات
اللہ تبارک و تعالٰی اپنے ان بندوں کی مدح و تعریف کرتا ہے جو خیرات و صدقات کرتے ہیں اور پھر جسے دیتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اور نہ اپنی زبان سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں، ان سے ایسے جزائے خیر کا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کا اجر و ثواب رب دو عالم کے ذمہ ہے۔ ان پر قیامت کے دن کوئی ہول اور خوف و خطر نہ ہوگا اور نہ دنیا اور بال بچے چھوٹ جانے کا انہیں کوئی غم و رنج ہوگا، اس لئے کہ وہاں پہنچ کر اس سے بہتر چیزیں انہیں مل چکی ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ کلمہ خیر زبان سے نکالنا، کسی مسلمان بھائی کیلئے دعا کرنا، درگزر کرنا، خطاوار کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کی تہہ میں ایذاء دہی ہو، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی صدقہ نیک کام سے افضل نہیں۔ کیا تم نے فرمان باری( قول معروف الخ) نہیں سنا؟ اللہ تعالٰی اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ حلیم اور بردبار ہے، گناہوں کو دیکھتا ہے اور حلم و کرم کرتا ہے بلکہ معاف فرما دیتا ہے، تجاوز کر لیتا ہے اور بخش دیتا ہے صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہیں، ایک تو دے کر احسان جتانے والا، دوسرا ٹخنوں سے نیچے پاجامہ اور تہبند لٹکانے والا، تیسرا اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان خیرات صدقہ کرکے احسان جتانے والا شرابی اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا، نسائی میں ہے تین شخوں کی طرف اللہ تعالٰی قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں، ماں باپ کا نافرمان، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا، نسائی کی اور حدیث میں ہے یہ تینوں شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے، اسی لئے اس آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات کو منت سماجت و احسان رکھ کر اور تکلیف پہنچا کر برباد نہ کرو، اس احسان کے جتانے اور تکلیف کے پہنچانے کا گناہ صدقہ اور خیرات کا ثواب باقی نہیں رکھا۔ پھر مثال دی کہ احسان اور تکلیف دہی کے صدقے کے غارت ہو جانے کی مثال اس صدقہ جیسی ہے جو ریاکاری کے طور پر لوگوں کو دکھاوے کیلئے دیا جائے۔ اپنی سخاوت اور فیاضی اور نیکی کی شہرت مدنظر ہو، لوگوں میں تعریف و ستائش کی چاہت ہو صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب نہ ہو نہ اس کے ثواب پر نظر ہو، اسی لئے اس جملے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو تو اس ریاکارانہ صدقے کی اور اس احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے صدقہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی صاف چٹیل پتھر کی چٹان ہو جس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو، پھر سخت شدت کی بارش ہو تو جس طرح اس پتھر کی تمام مٹی دُھل جاتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتی، اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگوں کے خرچ کی کیفیت ہے کہ گو لوگ سمجھتے ہوں کہ اس کے صدقہ کی نیکی اس کے پاس ہے جس طرح بظاہر پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن جیسے کہ بارش سے وہ مٹی جاتی رہی اسی طرح اس کے احسان جتانے یا تکلیف پہچانے یا ریاکاری کرنے سے وہ ثواب بھی جاتا رہا اور اللہ تعالٰی کے پاس پہنچے گا تو کچھ بھی جزا نہ پائے گا، اپنے اعمال میں سے کسی چیز پر قدرت نہ رکھے گا، اللہ تعالٰی کافر گروہ کی راہِ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا۔