يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿31﴾
‏ [جالندھری]‏ اے بنی آدم ! ہرنماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔ اور کھاو اور پیو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا 
اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گذرا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو ، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔ پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ، اللہ تعالٰی زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے ۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی ۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے ۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے ۔ سنن کی ایک اور حدیث میں ہے سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالٰی نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو ۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ پیو پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالٰی پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے ۔ آپ فرماتے ہیں کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو ، فرماتے ہیں انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا ۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ایک کھانے کیلئے ایک پانی کیلئے ایک سانس کیلئے ۔ فرماتے ہیں یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے ۔ لیکن حدیث غریب ہے ۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے ۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے ۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ ۔ نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو ۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے ۔