فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿5﴾
‏ [جالندھری]‏ جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
جہاد اور حرمت والے مہینے 
حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر( آیت منھا اربعۃ حرم الخ) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آرہا ہے۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی جیسے فرمان ہے(آیت ولا تقاتلوھم عندالمسجد الحرام الخ،) یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کر لو ، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لاکر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کردو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں پابند نماز ہو جائیں زکوۃ دینے کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوۃ کا ذکر اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوۃ دیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالٰی ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالٰی برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرلیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے ۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالٰی اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہوگا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے(آیت فان تابوا واقاموا الصلوۃ واتو الزکوۃ فخلوا سبیلھم ) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں نماز اور زکوۃ کے پابند ہوجائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا، جو مشرکوں سے تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہو نے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے(آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے(آیت قاتلو الذین لا یومنون باللہ الخ،) اللہ تبارک و تعالٰی پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کرلیں۔ تیری تلوار منافوں میں فرمان ہے( یا ایھا النبی جاہد الکفار والمنافقین الخ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے(آیت وان طائفتان من المومنین اقتتلو الخ،) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرادو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آجائے۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار( آیت فاما منا بعد واما فداء) سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔