وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ ﴿6﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سُننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔ اس لئے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردو
اللہ تبارک و تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کرلے حجت ربانی پوری ہو جائے۔ پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بےخوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کرلے۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچادو۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ یہاں آکر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟ اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ۔