حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿40﴾
‏ [جالندھری]‏ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔ تو ہم نے نوح (کو) حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی) دو (دو جانور ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے (کہ ہلاک ہو جا ئیگا) اسکو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اسکو کشتی میں سوار کرلو اور انکے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول 
حسب فرمان ربی آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور حضرت نوح کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا۔ تنور کے ابلنے سے بقول ابن عباس یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے۔ مجاہد اور شعبی کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا۔ ابن عباس سے مروی ہے ہند میں ایک نہر ہے۔ قتادہ کہتے ہیں جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے عین الوردہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرلو۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا۔ جیسا نباتات۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہو نے لگا۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آگئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا۔ حضرت نوح جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے ۔ آخر آپ نے فرمایا آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے؟ پس اللہ تعالٰی نے اسے بخار ڈال دیا۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے۔ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا۔ آپ کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا۔ یا آپ کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول کی منکر تھی اور تیری قوم کے تمام مسمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے اب عباس فرماتے ہیں کل اسی(80) آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں کعب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سب بہتر (72) اشخاص تھے۔ ایک قول ہے صرف دس(10) آدمی تھے ایک قول ہے حضرت نوح تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام ، حام، یافث اور چار عورتیں تھیں۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود حضرت نوح کی بیوی۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے حضرت نوح کی بیوی ہلاک ہو نے والوں میں ہلاک ہوئی۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ السلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی ۔ واللہ اعلم واحکم۔