وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿41﴾
‏ [جالندھری]‏ (نوح نے) کہا کہ خدا کا نام لیکر (کہ اسی کے ہاتھ میں) اس کا چلنا اور ٹھہرنا (ہے) اس میں سوار ہوجاؤ۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
کشتی نوح پر کون کون سوار ہوا؟ 
حضرت نوح جنہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ آؤ اس میں سوار ہو جاؤ اس کا پانی پر چلنا اللہ کے نام کی برکت سے ہے اور اسی طرح اس کا آخری ٹھہراؤ بھی اسی پاک نام سے ہے۔ ایک قرآت میں مجرھا و مرسھا بھی ہے۔ یہی اللہ کا آپ کو حکم تھا کہ جب تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہنا(آیت الحمد اللہ الذی نجانا من القوم الظالمین) اور یہ بھی دعا کرنا کہ(آیت رب انزلنی منزلا مبارکا وانت خیر المنزلین) اس لیے مستحب ہے کہ تمام کاموں کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لی جائے خواہ کشتی پر سوار ہونا ہو، خواہ جانور پر سوار ہونا ہو، جیسے فرمان باری ہے کہ اسی اللہ نے تمہارے لیے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اور کشتیاں اور چوپائے تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے ہیں کہ تم ان کی پیٹھ پر سواری کرو، الخ، ۔ حدیث میں بھی اس کی تاکید اور رغبت آئی ہے، سورہ زخرف میں اس کا پورا بیان ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ ان کے اس قول میں ہے سوار ہوتے ہوئے کہہ لیں (آیت بسم اللّٰہ الملک وما قدرواللہ حق قدرہ ) پوری( آیت بسم اللہ مجر ھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم ) اس دعا کے آخر میں اللہ کا وصف غفور و رحیم اس لیے لائے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنون پر رحمت و شفقت کا اظہار ہو۔ جیسے فرمان ہے تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور ساتھ ہی غفور و رحیم بھی ہے۔ اور آیت میں ہے(آیت ان ربک لذوا مغفرۃ للناس علی ظلمھم ون ربک لشدید العقاب) یعنی تیرا پروردگار لوگوں کے گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔ اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رحمت و انتقام کا بیان ملا جلا ہے۔ 
پانی روئے زمین پر پھر گیا ہے، کسی اونچے سے اونچے پہاڑ کی بلندی سے بلند چوٹی بھی دکھائی نہیں دیتی بلکہ پہاڑوں سے اوپر پندرہ ہاتھ اور بقولے اسی میل اوپر کو ہو گیا ہے باوجود اس کی کشتی نوح بحکم الٰہی برابر صحیح طور پر جا رہی ہے۔ خود اللہ اس کا محافظ ہے اور وہ خاص اس کی عنایت و مہر ہے۔ جیسے فرمان ہے( انا لما طغی الماء حملنا کم فی الجاریتہ الخ،) یعنی پانی میں طغیانی کے وقت ہم نے آپ تمہیں کشتی میں چڑھا لیا کہ ہم اسے تمہارے لیے نصیحت بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھ لیں اور آیت میں ہے کہ ہم نے تمہیں اس تختوں والی کشتی پر سوار کرایا اور اپنی حفاظت میں پار اتارا اور کافروں کو ان کے کفر کا انجام دکھا دیا اور اسے ایک نشان بنا دیا کیا اب بھی کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے؟ اس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کو بلایا یہ آپ کے چوتھے لڑکے تھے اس کا نام حام تھا یہ کافر تھا اسے آپ نے کشتی میں سوار ہو نے کے وقت ایمان کی اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کی ہدایت کی تاکہ ڈوبنے سے اور کافروں کے عذاب سے بچ جائے۔ مگر اس بد نیت نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان باراں سے بچ جاؤں گا۔ ایک اسرائیلی روایت میں ہے کہ اس نے شیشے کی کشتی بنائی تھی واللہ اعلم۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ اس نے یہ سمجھا کہ یہ طوفان پہاڑوں کی چوٹیوں تک نہیں پہنچنے کا میں جب جا پہنچوں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑے گا؟ اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ آج عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہیں وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو۔ یہاں عاصم معصوم کے معنی میں ہے جیسے طاعم مطعوم کے معنی میں اور کاسی مکسو کے معنی میں آیا ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں جو ایک موج آئی اور پسر نوح کو لے ڈوبی۔