وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ ۚ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا ﴿17﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو خدا ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کردے تو تم اسکے لیے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
غار اور سورج کی شعائیں
یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس غار کا منہ شمال رخ ہے ۔ سورج کے طلوع کے وقت ان کے دائیں جانب دھوپ کی چھاؤں جھک جاتی ہے پس دوپہرے کے وقت وہاں بالکل دھوپ نہیں رہتی ۔ سورج کی بلندی کے ساتھ ہی ایسی جگہ سے شعاعیں دھوپ کی کم ہوتی جاتی ہیں اور سورج کے ڈوبنے کے وقت دھوپ ان کے غار کی طرف اس کے دروازے کے شمال رخ سے جاتی ہے مشرق جانب سے ۔ علم ہیئت کے جاننے والے اسے خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ جنہیں سورج چاند اور ستاروں کی چال کا علم ہے ۔ اگر غار کا دروازہ مشرق رخ ہوتا تو سورج کے غروب کے وقت وہاں دھوپ بالکل نہ جاتی اور اگر قبلہ رخ ہوتا تو سورج کے طلوع کے وقت دھوپ نہ پہنچتی اور نہ غروب کے وقت پہنچتی اور نہ سایہ دائیں بائیں جھکتا اور اگر دروازہ مغرب رخ ہوتا تو بھی سورج نکلنے کے وقت اندر دھوپ نہ جا سکتی بلکہ زوال کے بعد اندر پہنچتی اور پھر برابر مغرب تک رہتی ۔ پس ٹھیک بات وہی ہے جو ہم بیان نے کی فللہ الحمد تقرضہم کے معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے کئے ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ، نہ اس سے کسی شرعی مقصد کا حصول ہوتا ہے ۔ پھر بھی بعض مفسرین نے اس میں تکلیف اٹھائی ہے کوئی کہتا ہے وہ ایلہ کے قریب ہے کوئی کہتا ہے نینویٰ کے پاس ہے کوئی کہتا ہے ، روم میں ہے کوئی کہتا ہے بلقا میں ہے ۔ اصل علم اللہ ہی کو ہے وہ کہاں ہے اگر اس میں کوئی دینی مصلحت یا ہمارا کوئی مذہبی فائدہ ہوتا تو یقینا اللہ تعالٰی ہمیں بتا دیتا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کرا دیتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہیں جو جو کام اور چیزیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی تھیں ان میں سے ایک بھی ترک کئے بغیر میں نے بتا دی ہیں پس اللہ تعالٰی نے اس کی صفت بیان فرما دی اور اس کی جگہ نہیں بتائی ۔ فرما دیا کہ سورج کے طلوع کے وقت ان کے غار سے وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت انہیں بائیں طرف چھوڑ دیتا ہے ، وہ اس سے فراخی میں ہیں ، انہیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے جل جاتے یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب انہیں اس غار میں پہنچایا جہاں انہیں زندہ رکھا دھوپ بھی پہنچے ہوا بھی جائے چاندنی بھی رہے تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ نقصان پہنچے ۔ فی الواقع اللہ کر طرف سے یہ بھی کامل نشان قدرت ہے ۔ ان نوجوانوں موحدوں کی ہدایت خود اللہ نے کی تھی ، یہ راہ راست پا چکے تھے کسی کے بس میں نہ تھا کہ انہیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔