وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴿105﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ملک کے وارث ہوں گے ‏
تفسیر ابن كثیر
سچافیصلہ 
اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک ومال دیتا ہے ، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے۔ جیسے فرمان آیت (ان الارض للہ یورثہا من یشاء من عبادہ الخ)، زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، انجام کارپرہیزگاروں کا حصہ ہے۔ اور فرمان ہے ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں اور فرمان ہے کہ تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو قوی کردے گا جس سے وہ خوش ہے۔ اور فرمایا کہ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے، یقینا ہو کرہی رہے گا۔ زبور سے مراد بقول سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ تورات انجیل اور قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں زبور سے مراد کتاب ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ۔ ذکر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے سعید فرماتے ہیں ذکر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی ام الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پرنازل ہوئیں اور ذکر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ۔ فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الٰہی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ امت محمد زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین۔ ابودرداء فرماتے ہیں صالح لوگ ہم ہی ہیں ۔ مراد اس سے باایمان لوگ ہیں اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت وکفایت ہے ان کے لئے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کردیتے ہیں پھر فرماتا کہ ہم نے اپنے اس نبی کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیاوآخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد وناشاد ہے۔ جیسے ارشاد ہے کہ کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربانی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کردیا۔ اس قرآن کی نسبت فرمایا کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت وشفا ہے بے ایمان بہرے اندھے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ ایک موقع پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے لئے بدعا کیجئے آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں میں تو صرف رحمت وہدایت ہوں۔ اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ طبرانی میں ہے کہ اے قریشیو! محمد یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھرادھر تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بےمثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابوالحکم سنو تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلاوطن کردیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کرچکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہئے اس سے بالکل الگ تھلک رہو۔ اس پر ابوسفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہئے یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آگئے تو تم کہیں کے نہ رہوگے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہئے کہ یا تو وہ محمد کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دوگوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کر دینا چاہیے اگر تم تیار ہوجاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل وغارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کرکے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کردے ۔ میرے پانچ نام ہیں محمد، احمد، ماحی، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹادے گا،حاشر اس لئے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے اور عاقب ۔ مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدائن میں تھے بسااوقات احادیث رسول کامذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت سلمان کے پاس آئے توحضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اے حذیفہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کردی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آجاتا ہے ۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمتہ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لئے موجب رحمت بنادے ۔ رہی یہ بات کہ کفار کے لئے آپ رحمت کیسے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ مؤمنوں کے لئے تو آپ دنیا وآخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لئے آپ دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے۔ جیسے کہ اگلی امتوں کے منکروں پر عذاب آئے ۔