وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ ﴿42﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر یہ لوگ تم کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم بھی عاد اور ثمود کی قوم بھی (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
کافروں کی حجت بازی بہت پرانی بیماری ہے
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ منکروں کا انکار آپ کیساتھ کوئی نئی چیز نہیں۔ نوح علیہ السلام سے لے کر موسیٰ علیہ السلام تک کے کل انبیاء کا انکار کفار برابر کرتے چلے آئے ہیں۔ دلائل سامنے تھے ، حق سامنے تھا لیکن منکروں نے مان کر نہ مانا ۔ میں نے کافروں کو مہلت دی کہ یہ سوچ سمجھ لیں اپنے انجام پر غور کرلیں ۔ لیکن جب وہ اپنی نمک حرامی سے باز نہ آئے تو آخرکار میرے عذابوں میں گرفتار ہوئے ، دیکھ لے کہ میری پکڑ کیسی بےپناہ ثابت ہوئی کس قدر دردناک انجام ہوا۔ سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے حکمرانی کے دعوے اور اللہ کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا پھر آپ نے آیت (وکذالک اخذربک اذا القری وہی ظالمتہ ان اخذہ الیم شدید) تلاوت کی، پھر فرمایا کہ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کردیا ۔ جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں اوندھے گرے ہوئے ہیں، ان کی منزلیں ویران ہوگیئں ، ان کی آبادیاں ویران ہوگئیں ، ان کے کنویں خالی پڑے ہیں ، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں ، ان کے چونہ گچ محل جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ، جو بلند وبالا اور پختہ تھے وہ آج ویران پڑے ہیں ، وہاں الو بول رہا ہے، ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی ، ان کی خوبصورتی اور پائیداری بیکار ثابت ہوئی ۔ رب کے عذاب نے تہس نہس کردیا جیسے فرمان ہے آیت (اینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ) یعنی گو تم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں ۔ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں یا کبھی غور وفکر بھی نہیں کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی ؟ امام ابن ابی الدنیا کتاب التفکر والا عبار میں روایت لائے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ! لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار وعبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے ۔ اسی کتاب میں بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر۔ اور غور وفکر کے ساتھ اسے نورانی کر اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اس کو قوی کرلے اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کردے اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے ۔ دنیاکی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس آنکھیں کھول دے زمانے کی تنگی اسے دکھا اسے دہشت ناک بنادے، دنوں کے الٹ پھیر اسے سمجھا کر بیدار کردے۔ گذشتہ واقعات سے اسے عبرتناک بنا۔ اگلوں کے قصے اسے سنا کر ہوشیار رکھ۔ ان کے شہروں میں اور ان کی سوانح میں اسے غور وفکر کرنے کا عادی بنا۔ اور دیکھ کہ گہنگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہوا کس طرح وہ لوٹ پوٹ کردیئے گئے۔ پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیروشر کی تمیز ہوتی ہے ۔ ابومحمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ٥١٧ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں ۔ اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بےخبر ہے؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا ، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرناہی پڑے گا ۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی ۔