وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿55﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا وہ میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
عروج اسلام لازم ہے 
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا، لوگوں کا سردار بنا دے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے ۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے ، حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی ۔ مکہ ، خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا ۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی ، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا ۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے ۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے ، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا۔ اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے ۔ پھر جب کہ اللہ تعالٰی رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا ، آپ کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنبھالی ، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا ، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا ۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے ، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا ۔ بصری ، دمشق ، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔ آپ کی قوت ، طبیعت ، آپ کی نیکی ، سیرت، آپ کے عدل کا کمال ، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے ۔ تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا ۔ سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑگئے ، خود کسری کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی ۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا ۔ قیصر کو فنا کر دیا ۔ مٹا دیا ۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے ۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصی مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں ۔ اندلس ، قبرص ، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسری قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی ۔ دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے ۔ قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے ۔ (مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے ۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا ، لیٹا رہے ۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین آمین)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے (مسلم)
آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رجم کیا گیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے ۔ سب کے سب قریشی ہوں گے ، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے ، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں ۔ چنانچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں ۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا ۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا ، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا ، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا ۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا ۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اہل اسلام بہت خائف تھے ۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے ۔ 
ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں ، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے ۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے ۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک ۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا ۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے ۔آیت ( واذ کروا اذانتم قلیل مستضعفون فی الارض الخ) ، یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالٰی نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا ۔ پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا آیت (عسی ربکم ان یہلک عدوکم الخ) ، بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے ۔ اور آیت میں ہے (ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بطور وفد آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھاہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالٰی میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا ۔ یقین مان کہ کسری بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے ۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں ۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسری کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقینا پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔ مسند میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اسکا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے ۔ (بخاری ومسلم ) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے ۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے ۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی ۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی ۔ بخاری ومسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے ۔