أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ ﴿60﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا؟ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سر سبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ راستے سے الگ ہو رہے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
بیان کیا جارہاہے کہ کل کائنات کار چلانے والا، سب کا پیدا کرنے والا، سب کو روزیاں دینے والا، سب کی حفاظتیں کرنے والا، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا، صرف اللہ تعالٰی ہے۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ کھیتیاں ، باغات، پھل، پھول، دریا، سمندر، حیوانات، جنات، انسان، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے۔ اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے۔ جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ آیت (ولئن سالتہم من خلقھم الخ)، یعنی اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالٰی نے الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کرسکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے۔ اسی لئے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے؟ چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے۔ اس لئے ایک اور آیت میں فرمایا۔ آیت (افمن یخلق کمن لایخلق الخ)، خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کررہے ہو؟ یہ یاد رہے کہ ان آیات میں امن جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کرسکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کرسکتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کردیتا ہے۔ اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہیکہ آیت (ءاللہ خیر امایشرکون؟) کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں؟ آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں آیت (امن ہو قانت اناء اللیل الخ)، بھی اسی جیسی آیت ہے یعنی ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو۔ یعنی وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں۔ ایک اور جگہ ہے عالم اور بےعلم برابر نہیں۔ عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لئے کھلا ہوا ہو، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لئے ہو اور وہ اس جیسا نہیں۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا۔ اللہ نے آیت (افمن ھو قائم علی کل نفس الخ)، یعنی وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں۔ فرمان ہے آیت (وجعلو اللہ شرکاء الخ) یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا انکے نام تو مجھے بتاؤ پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفیتں بیان فرمائی ہیں۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں۔