أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ﴿62﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا کون بےقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہر گز نہیں) مگر تم غور بہت کم کرتے ہو ‏
تفسیر ابن كثیر
سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے۔ بےکس بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کردیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اسکی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بےقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کرسکتا۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کردے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے۔ قحط سالی ہوگئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے ۔ اس شخص نے کہا یارسول اللہ !مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا کسی کو برا نہ کہو۔ نیکی کے کسی کام کو ہلکا اور بےوقعت نہ سمجھو۔ خواہ اپنے مسلمان بھائی سے بہ کشادہ پیشانی ملنا ہو گو اپنے ڈول سے کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی کا دینا ہی ہو اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک رکھ۔ لمبائی میں زیادہ ٹخنے تک ۔ اس سے نیچے لٹکانے سے بچتا رہ۔ اس لئے کہ یہ فخر و غرور ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے (مسند احمد) ایک روایت میں انکا نام جابر بن سلیم ہے۔ اس میں ہے کہ جب حضور کے پاس آیا آپ ایک چادر سے گوٹ لگائے بیٹھے تھے جس کے پھندنے آپ کے قدموں پر گر رہے تھے میں نے آکر پوچھا کہ تم میں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ آپ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنی طرف اشارہ کیا میں نے کہا یارسول اللہ! میں ایک گاؤں کا رہنے والا آدمی ہوں ادب تمیز کچھ نہیں جانتا مجھے احکام اسلام کی تعلیم دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی چھوٹی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھ، خواہ اپنے مسلمان بھائی سے خوش خلقی کے ساتھ ملاقات ہو۔ اور اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگے والے کے برتن میں ذراسا پانی ڈال دینا ہی ہو۔ اگر کوئی تیری کسی شرمناک بات کو جانتاہو اور وہ تجھے شرمندہ کرے تو تو اسے اس کی کسی ایسی بات کی عار نہ دلا تاکہ اجر تجھے ملے اور وہ گنہگار بن جائے۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے سے پرہیز کر کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اور کسی کو بھی ہرگز گالی نہ دینا۔ حضرت طاؤس ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لئے گئے اس نے کہا میرے لئے دعا کرو آپ نے فرمایا تم خود اپنے لئے دعا کرو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا اللہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت وہب فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم! جو شخص مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اسکے مخالفین سے بچالوں گا اور ضرور بچالوں گا چاہے آسمان وزمین وکل مخلوق اس کی مخالفت اور ایذاء دینے پر تلے ہوں۔ اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے مان وامان سے چلتا پھرتا ہونے کے باوجود اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسادوں گا۔ اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی آیت (امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء) یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔ اس قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایک جنگ میں کافروں سے شکست اٹھائی اور واپس لٹے۔ ان میں ایک مسلمان جو بڑے سخی اور نیک تھے ان کا گھوڑا جو بہت تیز رفتا تھا راستے میں اڑگیا۔ اس ولی اللہ نے بہت کوشش کی لیکن جانور نے قدم ہی نہ اٹھایا۔ آخر عاجز آکر اس نے کہا کیا بات ہے جو اڑ گیا۔ ایسے ہی موقعہ کے لئے تو میں نے تیری خدمت کی تھی اور تجھے پیار سے پالا تھا۔ گھوڑے کو اللہ نے زبان دی اس نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ آپ میرا گھاس دانہ سائیس کو سونپ دیتے تھے اور وہ اس میں سے چرالیتا تھا مجھے بہت کم کھانے کو ملتا تھا اور مجھ پر ظلم کرتا تھا ۔ اللہ کے نیک بندے نے کہا اب سے میں تجھے اپنی گود ہی میں کھلایا کرونگا جانور یہ سنتے ہی تیزی سے لپکا اور انہیں جائے امن تک پہنچادیا۔ حسب وعدہ اب سے یہ بزرگ اپنے اس جانور کو اپنی گود میں ہی کھلایا کرتا تھا ۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کسی سے واقعہ کہہ دیا جس کی عام شہرت ہوگئی اور لوگ ان سے یہ واقعہ سننے کے لئے دور دور سے آنے لگے۔ شاہ روم کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے چاہاکسی طرح ان کو اپنے شہر میں بلالے۔ بہت کوشش کی مگر بےسود رہیں۔ آخر میں انہوں نے ایک شخص بھیجا کہ کسی طرح حیلے بہانے کرکے ان کو بادشاہ تک پہنچادے۔ یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہوگیا تھا بادشاہ کے پاس سے یہاں آیا ان سے ملا اپنا اسلام ظاہر کیا اور نہایت نیک بن کر رہنے لگایہاں تک کہ اس ولی کو اس پر پورا اعتماد ہوگیا اور اسے صالح اور دیندار سمجھ کر اس سے دوستی کر لی اور ساتھ ساتھ لے کر پھرنے لگے۔ اس نے اپنا پورا رسوخ جماکر اپنی ظاہری دینداری کے فریب میں انہیں پھنسا کر بادشاہ کو اطلاع دی کہ فلاں وقت دریا کے کنارے ایک مضبوط جری شخص کو بھیجو میں انہیں وہاں لے کر آجاؤں گا اور اس شخص کی مدد سے اسکو گرفتار کرلوں گا۔ یہاں سے انہیں فریب دے کر چلا اور وہاں پہنچایا دفعتا ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے بزرگ پر حملہ کیا ادھر سے اس مرتد نے حملہ کیا اس نیک دل شخص نے اس وقت آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور دعا کی کہ اے اللہ ! اس شخص نے تیرے نام سے مجھے دھوکا دیا ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو جس طرح چاہے مجھے ان دونوں سے بچالے۔ وہیں جنگل سے دو درندے دھاڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے اور ان دونوں شخصوں کو انہوں نے دبوچ لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے چل دئیے اور یہ اللہ کا بندہ وہاں سے صحیح وسالم واپس تشریف لے آیا رحمہ اللہ۔ اپنی اس شان رحمت کو بیان فرما کر پھر جناب باری کی طرف ارشاد ہوتا ہے کہ وہی تمہیں زمین کا جانشیں بناتا ہے۔ ایک ایک کے پیچھے آرہاہے اور مسلسل سلسلہ چلا جارہا ہے۔ جیسے فرمان آیت (ان یشأ یذھبکم الخ)، اگر وہ چاہے تو تم سب کو تو یہاں سے فنا کردے اور کسی اور ہی کو تمہارا جانشین بنادے جیسے کہ خو تمہیں دوسروں کا خلیفہ بنادیا ہے۔ اور آیت میں ہے آیت (وھوالذی جعلکم خلاف الارض الخ)، اس اللہ نے تمہیں زمینوں کا جانشین بنایا ہے اور تم میں سے ایک کو ایک پر درجوں میں بڑھا دیا ہے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا وہ اس اعتبار سے کہ ان کی اولاد ایک دوسرے کی جانشین ہوگی جیسے کہ آیت (واذقال ربک للملائکۃ الخ) کی تفسیر اور بیان گذر چکا ہے۔ اس آیت کے اس جملے سے بھی یہی مراد ہے کہ ایک کے بعد ایک ، ایک زمانہ کے بعد دوسرا زمانہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم پس یہ اللہ کی قدرت ہے اس نے یہ کیا کہ ایک مرے ایک پیدا ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان سے ان کی نسل پھیلائی اور دنیا میں ایک ایسا طریقہ رکھا کہ دنیا والوں کی روزیاں اور ان کی زندگیاں تنگ نہ ہوں ورنہ سارے انسان ایک ساتھ شاید زمین میں بہت تنگی سے گزارہ کرتے اور ایک سے ایک کو نقصانات پہنچتے ۔ پس موجودہ نظام الٰہی اس کی حکمت کا ثبوت ہے سب کی پیدائش کا ، موت کا آنے جانے کا وقت اس کے نزدیک مقرر ہے۔ ایک ایک اس کے علم میں ہے اس کی نگاہ سے کوئی اوجھل نہیں۔ وہ ایک دن ایسا بھی لانے والا ہے کہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے اور ان کے فیصلے کرے نیکی بدی کا بدلہ دے۔ اپنی قدرتوں کو بیان فرماتا ہے کوئی ہے جو ان کاموں کو کرسکتا ہو؟ اور جب نہیں کرسکتا تو عبادت کے لائق بھی نہیں ہوسکتا ایسی صاف دلیلیں بھی بہت کم سوچی جاتی ہیں اور ان سے نصیحت بھی بہت کم لوگ حاصل کرتے ہیں۔