اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ ﴿54﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد
انسان کی ترقی وتنزل اس کی اصل تو مٹی سے ہے ۔ پھر نطفے سے پھرخون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف ونحیف ہو کر نکلتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہوجاتی ہے۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے پھر بڈھا ہوتا پھونس ہوجاتا ہے طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے ۔ کہ ہمت پست ہے ، دیکھنا سننا چلنا پھرنا اٹھنا اچکنا پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہے۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں ۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہوجاتے ہیں ۔ یہ قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنی کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک وہ عالم وقادر نہ اس کاسا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت ۔ حضرت عطیہ عوفی کہتے ہیں میں نے اس آیت کو ضعفا تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے پڑھا تو آپ نے بھی اسے تلاوت کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو اتناہی پڑھا تھا جو آپ پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی (ابوداؤد ترمذی مسند احمد )