وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ ۚ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ ﴿55﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جس روز قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے تھے اسی طرح وہ (راستہ سے) الٹے جاتے تھے ‏
تفسیر ابن كثیر
واپسی ناممکن ہوگی
اللہ تعالٰی خبر دیتا ہے کہ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کیساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھاکر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے۔ اس سے ان کامقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی۔ ہمیں معذور سمجھاجائے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے۔ فرماتا ہے کہ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت (وان یستعتبوا فماھم من المعتبین) یعنی اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے۔