إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿35﴾
‏ [جالندھری]‏ (جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں کچھ شک نہیں کہ انکے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ کی باتیں سننے لگی تو آپ اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے۔ نسائی وغیرہ۔ اور بہت سی روایتیں آپ سے مختصراً مروی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا اور روایت میں ہے کہ عورتوں نے ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا۔ اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے (قالت الاعراب امنا) الخ۔ والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں۔ (یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے، واللہ اعلم، مترجم) قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گذاری ہے جیسے (امن ھوقانت) الخ، میں ہے اور فرمان ہے( ولہ من فی السموات والارض کل لہ قانتون ) یعنی آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے اور فرماتا ہے( یا مریم اقنتی) الخ، اور فرماتا ہے (وقوموا للہ قانتین) یعنی اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گذاری پیدا ہو جاتی ہے۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے۔ صحابہ کبار میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا، سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے۔ سچا نجات پاتا ہے۔ سچ ہی بولا کرو۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گذرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالٰی اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی اور حدیث میں ہے صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ یہ بدن کی زکوۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ (والصائمین والصائمات) الخ ، میں داخل ہو گیا۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے۔ حدیث میں ہے اے نوجوانو تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے، یہی اس کے لئے گویا خصی ہونا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گذر جانے والا ہے۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لئے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو ابوداؤد وغیرہ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے؟ آپ نے فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی؟ آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالٰی کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا۔ (مسند احمد) مسند ہی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے؟ فرمایا اللہ تعالٰی کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے۔ پھر فرمایا اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما! لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا یا اللہ سرمنڈوانے والوں کو بخش ۔ لوگوں نے پھر کتروانے الوں کے لئے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کتروانے والے بھی۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا ۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز، زکوۃ،حج صدقہ، سب کی بابت پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ اسی سورت کی آیت (یا ایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ) الخ، کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے انشاء اللہ تعالٰی ۔ پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لئے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت