وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ﴿36﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہو گیا ‏
تفسیر ابن كثیر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا " میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری۔ اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔ یا رسول اللہ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابومعیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے۔ پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ( النبی اولی بالمومنین من انفسھم ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں۔ پس آیت ( ماکان لمومن) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ،ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کورد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کورد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرناچاہیے۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے، یہ ٹھیک نہیں۔ چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟ آپ نے فرمایا! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے، چنانچہ نکاح ہو گیا۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوبردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھاکہ انکار نہ کرو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( ما کان لمومن) الخ، نازل ہوئی تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق، نہ کسی اور بات کا۔ جیسے فرمایا (فلا وربک لایومنون) الخ، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے۔ جیسے فرمان ہے (فلیعذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنتہ اویصبیھم عذاب الیم) یعنی جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو۔