مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ﴿4﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں تو ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ‏
تفسیر ابن كثیر
انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے۔ یہ لوگ اگر مال دار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا؟ جیسے اور جگہ ہے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بےبس کردیں گے۔ پھر اللہ تبارک و تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی، حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی امت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑلیا۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کردیا۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک، جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس امت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے۔ واللہ اعلم۔