مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم

دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سر سید نے اس کو قصداً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔

سر سید کہتے تھے کہ:
"جب میں مراد آباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے، میں نے سنا کہ وہ مراد آباد میں سرائے میں آ کر ٹھہرے ہیں۔ میں فورا سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"

ظاہرہ جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مراد آباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سر سید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا تو بہت گھبرائے، سر سید نے کہا:
"آپ خاطر جمع رکھئے، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"

مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:

واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند
چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند

سر سید ہنس کے چُپ ہو رہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہو گئی، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔

×: منشی غلام نبی خاں