انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔اس کی پانچ سو جلدیں چَھپ کر ان کے پاس پہنچ گئیں۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے، انہوں نے کہا کہ ان تمام کتابوں کو جلا دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ سر سید نے کہا:
"میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں۔ پس اگر ایک ایسے کام پر جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لئے مفید ہو، مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔"
رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو رہے۔
لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبابِ بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز علیحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لئے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیالات ظاہر کرتے۔
سر سید نے کہا:
"میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں ولایت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے۔ میں جانتا تھا کہ آجکل بسبب غیظ و غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لئے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے ہیں، اس لئے جس طرح میں نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔ اگر اس کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔"
مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سر سید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں شائع نہیں ہوا؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور حامی و مددگار رہے۔
انہوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ
"ولایت میں سر جان۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ، " کیا تم جانتے ہو، یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمہارا رسالہ اسبابِ بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لئے وہ نہ چھپے اور نہ ان کا ولایت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔"