ایک بہت بڑا فائدہ سر سید کے مراد آباد میں ہونے سے خاص کر مسلمانوں کو یہ پہنچا کہ مولانا عالم علی مرحوم رئیس مراد آباد جو روہیل کھنڈ کے ایک مشہور عالم اور طبیب اور نامور محدث تھے، انہوں نے چند یورپین عورتوں اور بچوں کو باغیوں کے ظلم سے بچانے کے لئے اپنے مکان میں چھپا لیا تھا، مگر اتفاق سے باغی سپاہیوں کو خبر ہو گئی اور انہوں نے مولوی صاحب کے مکان میں گُھس کران سب کو قتل کر ڈالا۔مولانا موصوف اس خیال سے کہ یہ حادثہ عظیم ان کے مکان میں گزرا تھا اور ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار ان مظلوموں کے ساتھ نہیں مارا گیا تھا، سرکاری تسلط کے وقت مراد آباد سے کہیں چلے گئے تھے اور حکام ضلع کو ان کی تلاش درپیش تھی، اور انکی نسبت یہ گمان تھا کہ باغیوں کے ساتھ ان کی ضرور سازش تھی ورنہ ان کے آدمی بھی مقتولوں کے ساتھ یقیناً مارے جاتے، مگر سر سید کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مولوی عالم علی محض بے قصور تھے اور انہوں نے نہایت نیک نیتی سے یورپین عورتوں اور بچوں کو اپنے گھر میں رکھا تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ باغیوں کو مولوی صاحب سے کوئی وجہ عداوت نہ تھی کہ وہ ان کو یا ان کے رشتے داروں کو بھی مار ڈالتے اور خود ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ باغی سپاہ کا مقابلہ کرتے۔ چنانچہ سر سید نے مولوی صاحب کی بریت کے لئے صاحبِ ضلع سے، باوجویکہ وہ نہایت افروختہ تھے، بڑی دلیری کے ساتھ گفتگو کی اور یہ کہا کہ
"میں مولوی عالم علی کو آپ کے سامنے حاضر کر سکتا ہو ں، لیکن جب تک کہ آپ یہ وعدہ نہ کریں کہ ان سے کچھ مواخذہ نہ کیا جائے گا اس وقت تک میں ان کو بلانے کی جرات نہیں کر سکتا۔"

آخر میں صاحب ضلع نے ان سے یہ وعدہ کر لیا کہ ہم ضابطہ کی تحقیقات تو ضرور کریں گے لیکن چونکہ تمہارے نزدیک وہ بے قصور ہیں، بعد ضابطہ کی کارروائی کے ان کو بری کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سر سید نے مولوی صاحب کو بلا کر عدالت میں پیش کر دیا اور ضابطہ کی کارروائی کے بعد وہ بالکل بری کر دیئے گئے۔