حمادؒ کوفہ کے مشہور امام اور استادِ وقت تھے۔ حضرت انسؓ سے جو رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص تھے، حدیث سنی تھی اور بڑے بڑے تابعین کے فیضِ صحبت سے مستفید ہوئے تھے۔ اس وقت کوفہ میں انہی کا مدرسہ مرجعِ عام سمجھا جاتا تھا۔ اس مدرسۂ فکر کی ابتداء حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے شاگرد شریحؒ، علقمہؒ اور مسروقؒ اس مدرسہ کے نامور ائمہ ہوئے جن کا شہرہ اس وقت تمام دنیائے اسلام میں تھا۔ پھر ابراہیم نخعیؒ اور ان کے بعد حمادؒ تک اس کی امامت پہنچی۔

حضرت علیؓ و عبد اللہ بن مسعودؓ سے فقہ کا جو سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مدار انہی پر رہ گیا تھا۔ ان وجوہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علمِ فقہ پڑھنا چاہا تو استادی کے لئے انہی کو منتخب کیا۔ ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روز کے بعد جب حماد کو تجربہ ہو گیا کہ تمام حلقہ میں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ "ابو حنیفہؒ سب سے آگے بیٹھا کریں۔

حضرت حمادؒ کے حلقۂ درس میں ہمیشہ حاضر ہو تے رہے۔ خود امام صاحبؒ کا بیان ہے کہ "میں دس برس تک حمادؒ کے حلقہ میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں حمادؒ کا ایک رشتہ دار جو بصرہ میں رہتا تھا انتقال کر گیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر بغرض تعزیت سفر پر روانہ ہو گئے۔ چونکہ مجھ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے، تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کیلئے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینہ کے بعد حماد بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ کل ساٹھ مسئلے تھے، ان میں سے انہوں نے بیس غلطیاں نکالیں، باقی کی نسبت فرمایا کہ تمہارے جواب صحیح ہیں۔ میں نے عہد کیا کہ حمادؒ جب تک زندہ ہیں ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا۔"

متعدد طریق سے یہ بھی مروی ہے کہ آپؒ نے قرأت امام عاصمؒ سے سیکھی جن کا شمار قراءِ سبعہ میں ہو تا ہے اور انہیں کی قرأت کے مطابق قرآن حفظ کیا۔