امام ابو حنیفہؒ کو اگرچہ ان درسگاہوں سے حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا۔ تاہم تکمیل کی سند حاصل کر نے کے لئے حرمین جانا ضروری تھا جو علومِ مذہبی کے اصل مراکز تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہؒ مکہ پہنچے۔ درس و تدریس کا نہایت زور تھا۔ متعدد اساتذہ جو فنِ حدیث میں کمال رکھتے تھے اور اکثر صحابہؓ کی خدمت سے مستفید ہوئے، انکی الگ الگ درسگاہ قائم تھی۔ ان میں عطا ئؒ مشہور تابعی تھے جو اکثر صحابہؓ کی خدمت میں رہے اور ان کی فیضِ صحبت سے اجتہاد کا رتبہ حاصل کیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ، اسامہ بن زیدؓ، جابر بن عبداللہؓ، زید بن ارقمؓ، ابو دردائؓ، ابوہریرہؓ اور بہت سے صحابہ سے حدیثیں سنی تھیں۔ مجتہدین صحابہؓ ان کے علم و فضل کے معترف تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ "عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے لوگ میرے پاس کیوں آتے ہیں؟" بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً اوزاعی، زُہریؒ، عمرو بن دینارؒ انہی کے حلقۂ درس سے نکل کر استاد کہلائے۔

امام ابو حنیفہؒ استفادہ کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ روز بروز امام صاحبؒ کی ذہانت و طباعی کے جوہر ظاہر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ استاد کی نظر میں آپ کا وقار بھی بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ جب حلقۂ درس میں جاتے تو عطاء اوروں کو ہٹا کر امام صاحبؒ کو اپنے پہلو میں جگہ دیتے۔ عطائؒ 115ھ تک زندہ رہے اس مدت میں امام ابو حنیفہؒ ان کی خدمت میں اکثر حاضر رہے اور مستفید ہوئے۔

عطاؒء کے سوا مکہ معظمہ کے اور محدثین جن سے امام صاحبؒ نے حدیث کی سند لی۔ ان میں عکرمہؒ کا ذکر خصوصیت سے کیا جا سکتا ہے۔ عکرمہؒ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے غلام اور شاگرد تھے۔ انہوں نے نہایت توجہ اور کوشش سے ان کی تعلیم و تربیت کی تھی یہاں تک کہ اپنی زندگی ہی میں اجتہاد و فتویٰ کا مجاز کر دیا تھا۔ امام شعبیؒ کہا کرتے تھے کہ قرآن کا جاننے والا عکرمہؒ سے بڑھ کر نہیں رہا۔ سعید بن جبیرؒ سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے فرمایا: ہاں! عکرمہؒ۔