امام صاحبؒ کی زندگی ہی میں اس مجموعہ نے وہ حسنِ قبول حاصل کیا کہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے مشکل سے قیاس میں آ سکتا ہے۔ جس قدر اس کے اجزاء تیار ہو جاتے تھے ساتھ ہی ساتھ تمام ملک میں اس کی اشاعت ہوتی جاتی تھی۔ امام صاحبؒ کی درسگاہ ایک قانونی مدرسہ تھا جس کے طلباء نہایت کثرت سے ملکی عہدوں پر مامور ہوتے اور ان کی آئینِ حکومت کا یہی مجموعہ تھا۔

تعجب یہ ہے کہ جن لوگوں کا امام صاحبؒ سے ہم عصری کا دعوی تھا وہ بھی اس کتاب سے بے نیاز نہ تھے۔ زائدہؒ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سفیان ثوریؒ کے سرہانے ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کر رہے تھے۔ ان سے اجازت مانگ کر میں اس کو دیکھنے لگا تو ابو حنیفہؒ کی کتاب "کتاب الرہن" نکلی۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ "آپ ابو حنیفہؒ کی کتابیں دیکھتے ہیں؟" بولے"کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہوتیں۔"