سب سے مقدم اور قابلِ قدر خصوصیت جو فقہ حنفی کو حاصل ہے وہ مسائل کا اسرار اور مصالح پر مبنی ہونا ہے۔ تمام مہماتِ مسائل کی مصلحت اور غایت خود کلامِ الہی میں مذکور ہے۔ کفار کے مقابلہ میں قرآن کا طرزِ استدلال عموماً اسی اصول کے مطابق ہے نماز کی مصلحت خدا نے خود بتائی کہ۔ "تنہی عن الفحشاء والمنکر" روزہ کی فرضیت کے ساتھ ارشاد ہوا "لعلکم تتقون"جہاد کی نسبت فرمایا "حتی لاتکون فتنۃ"اسی طرح اور احکام کے متعلق قرآن اور حدیث میں جا بجا تصریحیں اور اشارے موجود ہیں کہ ان کی غرض و غایت کیا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا یہی مذہب تھا اور یہ اصول ان کے مسائلِ فقہ میں عموماً مرعی ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ حنفی فقہ جس قدر اصولِ عقلی کے مطابق ہے اور کوئی فقہ نہیں۔ امام طحاویؒ نے جو محدث اور مجتہد دونوں تھے اس بحث میں ایک کتاب لکھی ہے جو "شرح معانی الآثار" کے نام سے مشہور ہے۔ اور جس کا موضوع یہ ہے کہ مسائلِ فقہ کو نصوص و طریقِ نظر سے مشابہ کیا جائے۔
مثلاً ایک مسئلہ جس میں امام ابو حنیفہؒ اور دوسرے ائمہ مختلف ہیں یہ ہے کہ چار پاؤں والے جانور کی زکوٰۃ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک زکوٰۃ میں جانور یا اس کی قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔
امام شافعیؒ کے نزدیک قیمت ادا کرنے سے زکوٰۃ ہو ہی نہیں سکتی، حالانکہ زکوٰۃ کی غرض حاصل ہونے میں جانور اور اس کی قیمت دونوں برابر ہیں اس لئے شارع نے بھی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔ اور سینکڑوں مسائل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حنفی مسائل میں ہر جگہ مصالح اور اسرار کی خصوصیت ملحوظ ہے لیکن ہم طوالت کے لحاظ سے ان سب کی تفصیل نہیں کر سکتے معاملات کے مسائل میں یہ عقدہ زیادہ حل ہو جاتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا مذہب کس قدر مصالح اور اسرار کے موافق ہے۔