تیسری خصوصیت فقہ حنفی میں معاملات کے متعلق جو قاعدے ہیں نہایت وسیع تمدن کے موافق ہیں۔
فقہ کا بہت بڑا حصہ جس سے دنیوی ضرورتیں متعلق ہیں معاملات کا حصہ ہے۔ اور یہی وہ موقع ہے جہاں ہر مجتہد کی دقتِ نظر اور نکتہ شناسی کا پورا اندازہ ہو سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے زمانے تک معاملات کے احکام ایسے ابتدائی حالت میں تھے کہ متمدن اور تہذیب یافتہ ممالک کے لئے بالکل ناکافی تھے۔ نہ معاہدات کے استحکام کے قاعدے منضبط تھے نہ دستاویزات وغیرہ کی تحریر کا اصول قائم ہوا تھا۔ نہ فصل و قضا، یا ادائے شہادت کا کوئی باقاعدہ طریقہ تھا۔
امام ابو حنیفہؒ پہلے شخص ہیں جو ان چیزوں کو قانون کی صورت میں لائے۔ لیکن افسوس ہے کہ مجتہدین جو ان کے بعد ہوئے انہوں نے بجائے اس کے کہ اس کو اور وسعت دیتے اسی غیر تمدنی حالت کو قائم رکھنا چاہا جس کا منشاء وہ زاہدانہ خیالات تھے جو علمائے مذہب کے دماغوں میں جاگزیں تھے۔
امام ابو حنیفہؒ نے جس دقتِ نظر اور نکتہ شناسی کے ساتھ احکام منضبط کئے اس کا صحیح اندازہ تو اس وقت ہو سکتا ہے کہ معاملات کے چند ابواب کا ایک مفصل تبصرہ لکھا جائے۔ لیکن ایسی مفصل کتاب کے لئے نہ وقت مساعد ہے اور نہ ہی اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش ہے۔ تاہم مالایدرک کلہ لا یترک کلہ۔ اس لئے نمونہ کے طور پر ہم صرف نکاح کا ذکر کرتے ہیں جو عبادات اور معاملات دونوں کا جامع ہے۔
قرآن مجید میں محرّمات کے نام تصریحاً مذکور ہیں۔ اس لئے اصل مسئلہ میں اختلاف پیدا ہو گیا انہیں مسائل میں حرمت یا زنا کا مسئلہ ہے جو امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے اختلاف کا ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے۔ امام شافعیؒ کا مذہب ہے کہ زنا سے حرمت کے احکام نہیں پیدا ہوتے۔ مثلاً باپ نے کسی عورت سے زنا کیا تو بیٹے کا نکاح اس عورت سے نا جائز نہیں۔
امام شافعیؒ نے اس کو یہاں تک وسعت دی کہ ایک شخص نے اگر کسی عورت کے ساتھ زنا کیا اور اس سے لڑکی پیدا ہوئی تو خود وہ شخص اس لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ زنا ایک حرام فعل ہے اس لئے وہ حلال کوحرام یا حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ امام ابو حنیفہؒ اس کے بالکل مخالف ہیں ان کے نزدیک مقاربت کے ذریعہ سے مرد اور عورت کے تعلقات پر جو فطری اثر پڑتا ہے وہ نکاح پر محدود نہیں ہے۔ اور یہ بالکل صحیح ہے محرمات کی حرمت جس اصول پر مبنی ہے۔ اس کو نکاح کے ساتھ خصوصیت نہیں۔ اپنے نطفہ سے جو اولاد ہو، گو زنا ہی سے ہو، اس کے ساتھ نکاح و مقاربت کو جائز رکھنا بالکل اصولِ فطرت کے خلاف ہے۔ باپ کی موطوءہ کا بھی یہی حال ہے وعلی ہذا القیاس۔
دوسری بحث یہ ہے کہ معاملۂ نکاح کا مختار کون ہے؟ یہ ایک نہایت مہتم بالشان سوال ہے اور نکاح کے اثر کی خوبی اور برائی بہت کچھ اسی پر منحصر ہے۔ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک عورت گو عاقلہ بالغہ ہو نکاح کے بارے میں خود مختار نہیں ہے۔ یعنی کسی حال میں وہ اپنا نکاح آپ سے نہیں کر سکتی بلکہ ولی کی محتاج ہے۔ ان بزرگوں نے ایک طرف تو عورت کو اس قدر مجبور کیا دوسری طرف ولی کو ایسے اختیارات دیئے ہیں کہ وہ زبردستی جس شخص کے ساتھ چاہے باندھ دے۔ عورت کسی حال میں انکار نہیں کر سکتی۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بالغہ عورت اپنے نکاح کی آپ مختار ہے بلکہ اگر نابالغی کی حالت میں ولی نے نکاح کر دیا ہو تو بالغ ہو کر وہ نکاح فسخ کر سکتی ہے اس بحث میں امام شافعیؒ کا مدار محض نقلی دلیلوں پر ہے۔ لیکن اس میدان میں بھی امام ابو حنیفہؒ ان سے پیچھے نہیں۔ اگر امام شافعیؒ کو لانکاح الا بولی پر استدلال ہے تو امام صاحب کی طرف الثیب احق بنفسہا من ولیہا والبکر تستاذن فی نفسہا موجود ہے لیکن اس بحث کا یہ موقع نہیں۔