ابوالمؤید خوارزمی کے مناقب میں ہے کہ روم کے بادشاہ نے خلیفہؒ کی خدمت میں بہت سا مال بھیجا اور حکم دیا کہ علماء سے تین سوال کئے جائیں۔ اگر جواب دیں تو وہ ان کو دے اور اگر جواب نہ دے سکیں تو خراج ادا کریں۔ خلیفہ نے علماء سے سوال کیا، لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ امام ابو حنیفہؒ کم سن تھے۔ اپنے والدؒ کے ساتھ حاضر ہوئے تھے۔ آپ نے والد صاحب سے جواب کی اجازت مانگی۔ والد صاحب نے منع کر دیا۔ امام صاحبؒ کھڑے ہو گئے اور خلیفہ سے اجازت طلب کی۔ اس نے اجازت دے دی۔ رومی سفیر سوال کرنے کے لئے ممبر پر تھا۔ امام صاحب نے کہا آپ سائل ہیں؟ اس نے کہا "ہاں"اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا "تو پھر آپ کی جگہ زمین ہے اور میری جگہ ممبر ہے۔" وہ اتر آیا۔ امام ابو حنیفہؒ ممبر پر چڑھے اور فرمایا: سوال کرو۔ اس نے کہا اﷲ سے پہلے کیا چیز تھی؟ امام صاحبؒ نے فرمایا عدد جانتے ہو ؟ اس نے کہا "ہاں" امام صاحبؒ نے فرمایا"ایک سے پہلے کیا ہے؟ رومی نے کہا ایک اول ہے، اس سے پہلے کچھ نہیں تو امام صاحبؒ نے فرمایا جب واحد مجازی لفظی سے پہلے کچھ نہیں تو پھر واحدِ حقیقی سے قبل کیسے کوئی ہو سکتا ہے؟

رومی نے دوسرا سوال کیا کہ اﷲ کا منہ کس طرف ہے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا جب تم چراغ جلاتے ہو تو چراغ کا نور کس طرف ہوتا ہے؟ رومی نے کہا "یہ نور ہے، اس کے لئے ساری جہات برابر ہیں" تب امام صاحبؒ نے فرمایا "جب نورِ مجازی کا رخ کسی ایک طرف نہیں، تو پھر جو نورالسموات والارض، ہمیشہ رہنے والا، سب کو نور اور نورانیت دینے والا ہے اس کے لئے کوئی خاص جہت کیسے متعین ہو گی؟

رومی نے تیسرا سوال کیا کہ اﷲ کیا کرتا ہے؟ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا "جب ممبر پر تم جیسا اﷲ کے لئے مماثل ثابت کرنے والا ہو تو اس کو اتارتا ہے اور جو مجھ جیسا موحد ہو اس کو ممبر کے اوپر بیٹھاتا ہے، ہر دن اس کی ایک نرالی شان ہوتی ہے۔"یہ جواب سن کر رومی چپ ہو گیا اور مال چھوڑ کر چلا گیا۔

ایک مرتبہ کچھ دہریہ لوگ (جو خدا کو نہیں مانتے تھے) امام ابو حنیفہؒ کے پاس پہنچ گئے ان کا ارادہ امام صاحب کو قتل کرنے کا تھا امام صاحبؒ نے فرمایا ذرا سی مہلت دو، ایک مسئلہ پر بحث کر لیں پھر جو چاہو کرنا۔ فرمایا "آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ ایک کشتی سامان سے بھری ہوئی موج در موج سمندر میں بلا ملاح کے چل رہی ہے کیا ایسا ہو سکتا ہے؟" ان لوگوں نے کہا "یہ محال ہے" امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا "تو کیا یہ جائز ہے کہ یہ دنیا جس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے سے مختلف ہے، جس کی ایک جگہ دوسری جگہ کی ضد ہے، جس کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں، جس کے اعمال وافعال متغیر ہوتے رہتے ہیں، بلا کسی حکیم و علیم اور صانع کے ہوں؟" یہ سن کر سب نے توبہ کی اور تلواروں کو میان میں کر لیا۔

مناقب زرنجری میں ہے کہ امام ابوالفضلؒ کرمانی نے فرمایا کہ جب خوارج کوفہ میں داخل ہوئے، جن کا عقیدہ یہ تھا کہ جس سے گناہ ہو جائے وہ کافر اور جو ان کے عقیدہ کا قائل نہ ہو، ان کی موافقت نہ کرے وہ بھی کافر، تو ان خوارج کو بتایا گیا کہ ان کوفیوں کے شیخ یہ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کفر سے توبہ کرو۔ امام صاحبؒ نے فرمایا میں تمہارے کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ انہوں نے آپ کو پکڑ لیا۔ امام صاحبؒ نے فرمایا تم ظن سے کہتے ہو یا یقین سے؟ انہوں نے کہا ظن سے۔ اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا "ان بعض الظن اثم، والاثم ذنب، فتوبوا من الکفر" ان لوگوں نے کہا "تو بھی کفر سے توبہ کر" تو امام ابو حنیفہؒ نے کہا میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں۔