خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے [1]
غرورِ دوستی آفت ہے، تُو دُشمن نہ ہو جائے
بہ پاسِ شوخیِ مژگاں سرِ ہر خار سوزن ہے
تبسّم برگِ گل کو بخیۂ دامن نہ ہو جائے
جراحت دوزیِ عاشق ہے جائے رحم ترساں [2] ہوں
کہ رشتہ تارِ اشکِ دیدۂ سوزن نہ ہو جائے
غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہائے خود بینی
سپیدی آئنے کی پنبۂ روزن نہ ہو جائے
سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشوونما، غالبؔ!
اگر گُل سَرو کے قامت پہ، پیراہن نہ ہو جائے