کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد، شرما جائے ہے، مُجھ سے
خُدایا! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے!
کہ جتنا کھینچتا ہوں، اور کِھنچتا [1] جائے ہے مُجھ سے
وہ بَد خُو، اور میری داستانِ عشق طُولانی
عبارت مُختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے، مُجھ سے
اُدھر وہ بد گمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار، چُھوٹا جائے ہے مُجھ سے
تکلف بر طرف، نظارگی میں بھی سہی، لیکن
وہ دیکھا جائے، کب یہ ظُلم دیکھا جائے ہے، مُجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہمسفر غالبؔ!
وہ کافر، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے