لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
کیا تعجب ہے کہ [1] اُس کو دیکھ کر آ جائے رحم
وا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے
منہ [2] نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے
یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خو ش ہے کہ مَیں
زلف گر بن جاؤں تو شانے میں اُلجھا دے مجھے
- نسخۂ عرشی میں "کہ" کی جگہ "جو" چھپا ہے۔ نظامی میں "کہ" درج ہے۔ (حامد علی خاں)
- اس شعر کا پہلا مصرع یوں ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع باندھا ہے مگر فصیح وہی ہے کہ " آنکھ دکھانا کہیں" ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اکثر فصیح اساتذہ نے آنکھیں دکھانا بھی کہا ہے ۔ ان میں میر، مصحفی، امیر، انیس، ذوق، مومن، ظفر، جرأت، نسیم دہلوی وغیرہ شامل ہیں۔ (حامد علی خاں)