خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری [1] سُرمہ سا نکلتی ہے
فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے
نسخۂ حسرت موہانی میں "ترے" چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں "ترے" اور "تری" کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں صورتوں میں تقریباً ایک ہی رہتا ہے۔ (حامد علی خاں)