اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں [1]
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ [2]
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے
پڑا ہے کام کا تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے"
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے