شب کو پہلُو میں جو وہ ماہِ سِیہ پوش آیا
ہوش کو اِتنی خبر ہے کہ نہ پِھر ہوش آیا
بے خودی سمجھی، ہم آغوش ہوئی مجھ سے بہار
کچھ اِس انداز سے وہ یا سمن آغوش آیا
جب نشاں تک نہ رہا قبر کا میری باقی
تب میری قبر پہ وہ زُود فراموش آیا
پھول بکھراتا ہوا، نِکہتیں برساتا ہوا
وہ سُمن رنگ و سُمن بو و سُمن پوش آیا
ماہ و انجم سے کہو، زینتِ کاشانہ بنیں
کہ پھر آغوش میں وہ عشرتِ آغوش آیا
اُن کا زانُو تھا میرا سر، مرا دل ہات اُن کا
بے خودی تیرا برا ہو مجھے کب ہوش آیا!
دو گھڑی مل بھی گئی گر غمِ دُنیا سے نِجات
چُٹکیاں لیتا ہوا دل میں غمِ دوش آیا
کِس لیے رو دیئے یوں بیٹھے بٹھائے اختر
آج کیا یاد کوئی یاد فراموش آیا