ہمارے ہاتھ میں کب ساغرِ شراب نہیں؟
ہمارے قدموں پہ کِس روز ماہتاب نہیں؟
جہاں میں اب کوئی صورت پئے ثواب نہیں
وہ میکدے نہیں، ساقی نہیں، شراب نہیں
شبِ بہار میں تاروں سے کھیلنے والے
ترے بغیر مجھے آرزوئے خواب نہیں
چمن میں بُلبُلیں اور انجُمن میں پروانے
جہاں میں کون غمِ عشق سے خراب نہیں
سُکوتِ حُسن کے لب پر ہیں مستیاں گویا
بہار جاگ رہی ہے، وہ محوِ خواب نہیں
وہی ہیں وہ، وہی ہم ہیں، وہی تمنّا ہے
الٰہی کیوں تری دُنیا میں انقلاب نہیں
ہے شام و صبح سے بیگانہ غمکدہ دل کا
چراغِ ماہ نہیں، شمعِ آفتاب نہیں
شباب مٹ چُکا یادِ شباب باقی ہے
ہے بُو شراب کی، ساغر میں اب شراب نہیں
سُنا یہ نغمہ، ستاروں کی چھاؤں میں مطرب!
کہ رات بھر کی ہے اِک روشنی، شراب نہیں
دریچۂ مہ و انجم سے جھانکنے والے
ہُوئی ہے عُمر کہ میں آشنائے خواب نہیں
غم، آہ عشق کے غم کا کو ئی نہیں موسم
بہار ہو کہ خزاں کب یہ اضطراب نہیں
حریم عرش کے سینے سے آ رہی ہے صدا
کہ اہلِ دل کی جگہ، عالمِ خراب نہیں
اُمیدِ پُرسشِ احوال ہو تو کیوں کر ہو
سلام کا بھی تری بزم میں جواب نہیں
بُجھا سا رہتا ہے دل، جب سے ہیں وطن سے جُدا
وہ صحنِ باغ نہیں، سیرِ ماہتاب نہیں
بسے ہوئے ہیں نگاہوں میں وہ حسیں کُوچے
ہر ایک ذرّہ، جہاں کم ز آفتاب نہیں
وہ باغ و راغ کے دلچسپ و دل نشیں منظر
کہ جن کے ہوتے ہوئے خُلد، مثلِ خواب نہیں
وہ جوئبارِ رواں کا طرب فزا پانی
شراب سے نہیں کچھ کم اگر شراب نہیں
برنگِ زُلفِ پریشاں، وہ موج ہائے رواں
کہ جِن کی یاد میں راتوں کو فِکرِ خواب نہیں
سما رہے ہیں نظر میں وہ مہ وِشانِ حرم
حرم میں جن کے ستارے بھی باریاب نہیں
وطن کا چھیڑ دیا کِس نے تذکرہ اختر
کہ چشمِ شوق کو پھر آرزوئے خواب نہیں